قارئین کرام ! السلام علیکم کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے جب بھی کرکٹ کا کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو پوری پاکستانی قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا نظر آتی ہے جیسے ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کے شیڈول کا اعلان ہوا تو پاکستانی شائقین کرکٹ نے قومی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم دیکھنے کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے آخر کار وہ دن بھی آیا جب ہمارا پہلا ہی میچ اس ٹیم کے ساتھ ہوا جو پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بلکہ کرکٹ میں انٹری کر رہی تھی اور ہماری ٹیم نے اس نومولود ٹیم سے بولررز کی نا اہلی کی وجہ سے شکست کھا کر ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی 2024 میں قدم رکھا جس پر پاکستانی قوم نے اپنے کرکٹرز پر کڑی تنقید کی جب عوام کی طرف سے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ جب ہماری ٹیم ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مقابلے کے لیے میدان میں اترے گی تو ایک ایسے جذبے کے ساتھ کھیلتی ہوئی نظر آئے گی کہ قوم کو شکست کا پچھلا صدمہ بھلانے کا موقع ملے گا اور بھارت کی شکست ہوگی اور اس پر جو قوم کو خوشی ہوگی وہ دیدنی ہوگی لیکن میرا وہ خیال اور پاکستانی قوم کے وہ سب خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب ہمارے تمام بیسٹمینوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخری 10 اوورز میں ٹی ٹونٹی میچ کو ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلا اور شکست سے دوچار ہو کر پوری قوم کو افسردہ کر دیا کیونکہ بھارت سے شکست ہمیں اور ہماری قوم کو کسی صورت قبول نہیں تھی حالانکہ پاک بھارت کے اب تک جو 135 ون ڈے میچز ہوئے ہیں ان میں سے پاکستان نے 73 میچ جیتے ہوئے ہیں اور بھارت 57 میچز جیت سکا ہے جبکہ 5 میچز کا فیصلہ نہ ہو سکا تھا اسی طرح ٹیسٹ میچوں میں بھی پاکستان کو برتری حاصل رہی ہے لیکن بد قسمتی سے ٹی ٹوئنٹی میچز میں ہم بھارت سے برتری حاصل نہ کر سکے ہیں 12 میں سے ہم صرف 3 ٹی ٹوئنٹی میچز جیت سکے ہیں ٹورنامنٹ میں مسلسل دوسری شکست پر قوم نے ایک مرتبہ پھر اپنی قومی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور سوشل میڈیا پر جو ہو سکتا تھا وہ لکھ کر اپنے دل کی بھڑکاس کو نکالا جب ہماری قوم تنقید پر آتی ہے تو وہ بھول جاتی ہے کہ کبھی یہ ہمارے ہیروز بھی رہے تھے یا نہیں ہماری قومی ٹیم ایک مرتبہ ورلڈ کپ اور ایک مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت چکی ہے لیکن اب مسلسل ہماری ٹیم کی جو کارکردگی ہے وہ ناقص ہے اور اس وقت ہماری ٹیم کا کارکردگی کے حساب سے نمبر بھی ساتواں ہو چکا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس کا ذمہ دار چیف سلیکٹر ہے جس کی تنخواہ کم و بیش 30 لاکھ سے زائد ہے ؟ کیا اس کا ذمہ دار ہیڈ کوچ ہے دو 30 لاکھ سے زائد لے کر ہمارے خزانے پر بوجھ ہے ؟ یا جو درجنوں کے حساب سے ڈائریکٹرز اور جنرل منیجرز ہیں جو ہر مہینے بھاری بھر کم تنخواہیں وصول کرتے ہیں ؟ یا جونیئر کوچز اے گیٹیگری، بی کیٹیگری، سی کیٹیگری کے کھلاڑیوں سمیت کرکٹ بورڈ کے دیگر عہدے داران اور سینکڑوں ملازمین ہیں جن کی تنخواہیں جو اربوں روپے ماہانہ بنتی ہیں کیا یہ سب اس کے ذمہ دار ہیں ؟ جب سے کرکٹ میں سفارش ازم نے جگہ بنائی ہے ہماری کرکٹ تباہی کی طرف گامزن نظر آتی ہے اگر قومی کرکٹ ٹیم اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی تو اس ٹیم سے بہتر ہے کہ ملک سے کرکٹ بورڈ اور قومی کرکٹ ٹیم کو ختم کر دیا جائے تاکہ قوم کے جو اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں وہ بچ سکیں اور حکومت قومی کھیل ہاکی کی ٹیم کو فعال کرے فٹبال کی ٹیم کو فعال کرے پورے ملک کے سکولوں میں کرکٹ کے علاوہ جو کھیل ہیں ان کو فروغ دے یا پھر کرکٹ میں سفارش ازم کا خاتمہ کر کے جو کھلاڑی قابل ہیں اور ان کا میرٹ بنتا ہے ان پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے جو ہمیشہ اچھا کھیل پیش کر کے ملک کو قوم کا سر دنیا کے سامنے بلند کر سکے۔ اب جس طرح افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ گری کرسٹن نے ہماری کرکٹ ٹیم کے ساتھ مزید کام کرنے سے معذرت کر لی ہے تو کیا ان کا یہ اقدام کرکٹ بورڈ میں ہونے والے سفارش ازم کی وجہ سے تو نہیں ؟ یا ان کے اس فیصلے سے جو سبکی بھارت سے شکست کے بعد پاکستانی قوم کو ملی ہے اس کا مداوا ہو سکتا ہے ؟بہرحال ہمارے ملک کے ہر ادارے ہر شعبے میں کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ ہمارے سر شرم سے جھک رہے ہیں اور کرپٹ عناصر دیدہ دلیری سے اپنا کرپشن کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں کرکٹ میں شکست تو میرے دوستو کچھ بھی نہیں ہم تو معاشرتی طور پر بھی ہر محاذ پر کھیل ہار چکے ہیں اللہ پاک ہمارے ارض پاک پر اپنی رحمت فرمائے اور کوئی ایسا مسیحا ہمیں دے جو ملک کو کرپٹ نظام سے پاک کر سکے۔ آمین