کچھ مشکل فیصلے لیکن عمل کون کریگا؟ ۔!!!

دنیا میں موجود زندہ قومیں اپنے نامساعد حالات کی صورت میں ان سے نمٹنے کیلئے کچھ مشکل فیصلے کرتی رہتی ہیں۔پھر جونہی وہ ان پہ قابو پا لیتی ہیں تو پھر اسی پرانی ڈگر پہ چلنا شروع کر دیتی ہیں۔اس ضمن میں چائینہ اور چاپان سمیت بہت سی قوموں کا نام بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ان قوموں نے اپنی ابتداء میں بہت برے حالات اور کٹھن حالات دیکھے لیکن اپنے عزم صمیم پختہ ارادے اور ہمت و حوصلے کی بدولت آج وہ دنیا کی سپر پاور بن چکی ہیں۔ پاکستانی بھی ایک زندہ قوم ہیں اگرچہ کچھ لوگ ہم پاکستانیوں کو بطور ایک قوم کے مانتے ہی نہیں۔انکا کہنا ہے کہ پاکستانی ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہ تو بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہیں۔ایک ایسا ریوڑ کہ جسے جدھر کوئی چاہتا ہے ہانک دیتا ہے اور وہ اسی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ دیکھے بغیر کہ آگے بہت بڑی کھائی ہے اور اس میں گرنے کا نتیجہ موت ہے۔تاہم کچھ لوگ شائد اس بات سے متفق نہ ہوں اور وہ انہیں زندہ قوم ہی ماننے پر اصرار کریں تو پھر زندہ قوموں کی طرح پاکستانی قوم کو بھی کچھ مشکل اور نا پسندیدہ فیصلے کرنے ہونگے۔تب جاکر ہی وہ اپنے نامساعد حالات پر قابو پا سکتے ہیں اور اس میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ بطور پاکستانی ہم اس وقت بہت ہی نامساعد اور برے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ہم زندہ قوم ہیں تو آیئے۔! اپنے حالات کی بہتری اور اچھے مستقبل کیلئے چند مشکل فیصلوں پہ عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ کرکٹ ایک بہت زیادہ مہنگا کھیل ہے جسے بیشک لوگ بہت پسند کرتے ہیں لیکن حالات کی بہتری کیلئے اس مہنگے کھیل پہ کچھ عرصے کیلئے پابندی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ذرائع کہتے ہیں کہ مبینہ طور پر کرکٹ ٹیم کے ایک :- ”چیف سیلیکٹر اور ہیڈ کوچ کو 32 لاکھ روپے ماہانہ“ ” ڈائریکٹرز اور جنرل مینیجرز کو فی 15 لاکھ روپے ماہانہ۔“ ”پانچ عدد کوچز کو فی کوچ 20 لاکھ روپے ماہانہ۔“ ”ٹیم کے اے کیٹیگری والے کھلاڑی کو 60 لاکھ روپے ماہانہ۔“ ”ٹیم کے بی کیٹیگری والے کو فی کھلاڑی 45لاکھ روپے ماہانہ۔“ ” ٹیم کے سی کیٹیگری والے کو17 لاکھ روپے ماہانہ۔“ ”میچ فیس کی مد میں فی کھلاڑی 4 سے 5 لاکھ روپے فی میچ۔“ ”بورڈ ملازمین کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہ اور اربوں روپے کے اخراجات پر مشتمل بیرونی دورے۔“کیا ہم انکے متحمل ہو سکتے ہیں وہ بھی برے اور نامساعد حالات میں۔ ”حکومت پنجاب میں بطور خاص بہت سے محکمے ایسے ہیں جہاں پہ غیر ضروری پوسٹوں کی بھرمار ہے۔ماضی میں ان پوسٹوں کے نہ ہونے کے باوجود ان محکموں کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔یہ پوسٹیں ایک سیاسی رشوت اور اپنے کارکنوں کو نوازنے کیلئے بنائی گئی تھیں اسلیئے انکا خاتمہ آجکل کے حالات کے تناظر میں بہت ضروری ہے۔“ ”حکومت نے اپنے کومتی عہدیداروں۔وزیروں۔مشیروں۔سینکڑوں کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور اراکین اسمبلی کو سینکڑوں کی تعداد میں لگژری گاڑیاں اور مفت بجلی۔ پیٹرول۔ گیس۔ٹیلیفون اور سیر سپاٹوں کیلئے بڑی مراعات دے رکھی ہیں۔“کیا حکومت کی طرف سے انہیں کچھ عرصے کیلئے واپس لینے یا چھوٹی گاڑیاں دینے یا مراعات کم کرنے پر غور ہو سکتا ہے؟ ”حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے ملازمین سے لیکر بڑے افسران تک تمام واپڈا ملازمین کو انکا حق سمجھتے ہوئے کروڑوں یونٹ مفت بجلی مہیا کر رکھی ہے جنکا بل عام عوام کی جیبوں سے وصول کیا جاتا ہے۔“کیا برے اور نامساعد حالات کو جواز بناء کر حکومت کو انہیں اس مفت بجلی دینے پہ نظر ثانی نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ سب  مشکل فیصلے ہیں لیکن کچھ عرصے کیلئے ان پہ عمل کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔ ”اقتصادی ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صرف غیر ضروری سرکاری پروٹوکول ہی ختم کر دیا جائے تو 380 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے“ یاد رہے کہ سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے آغاز پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک میں معاشی ابتری سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر کفائت شعاری مہم کے آغاز کا اعلان کیا تھا ۔ تفصیلات کے مطابق کفائت شعاری کے سلسلہ میں چلائی جانے والی اس مہم کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ:- ” کابینہ کے تمام ارکان تنخواہیں نہیں لیں گے۔یوٹیلیٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ان سے تمام سرکاری گاڑیاں واپس لے لی جائیں گی۔جون 2024ء تک تمام قسم کی لگژری گاڑیاں خریدنے پر پابندی ہوگی۔کابینہ ارکان غیر ضروری بیرونی دورے نہیں کریں گے۔اشد ضروری دورہ ہونے کی صورت میں بزنس کلاس کی بجائے اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔تمام تر پر تعیش اشیاء پر پابندی ہوگی۔سرکاری تقاریب میں ون ڈش پر عمل کیا جائے گا۔سرکاری طور پر دئیے جانے والے پیٹرول کو کم کر دیا جائے گا۔کابینہ کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران پر بھی ان پابندیوں کا اطلاق ہو گا جس کے تحت وہ بیرونی دورے اشد ضرورت کے تحت کریں گے۔انہیں ایک سے زیادہ پلاٹ الاٹ نہیں کیا جا سکے گا۔ان سے سیکورٹی گاڑیاں واپس لے لی جائیں گی اور صرف اشد ضرورت کے تحت وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔وہ آمدورفت کو محدود کرتے ہوئے میٹنگز اور کانفرنسز کیلئے ویڈیو لنک پر خطاب کریں گے۔ توشہ خانہ سے تحفہ لینے پر مکمل پابندی لگا دی جائیگی ساتھ ہی بجلی کی بچت اور کھپت کو کم کرنے کیلئے بازار اور مارکیٹس رات آٹھ بجے بند کر دی جائیں گی۔ بجلی کی بچت کیلئے ایسے بلب اور آلات استمال ہونگے جن کا بجلی کا خرچہ کم ہوگا۔“ لیکن یہ سب کچھ نہ سابقہ گورنمنٹ نے کیا ہے نہ ہی اب وہ کریگی اور نہ ہی کوئی اسے کرنے دے گا کیونکہ اس سے انکی شان و شوکت اور رعب و دبدبے میں فرق آئے گا۔رہی مشکلات کا شکار عوام ۔! تو اسے کون پوچھتا ہے۔؟