اخلاقی اقدار کی ڈولتی ناؤ کو دیکھ کر میرے سمیت ہر ذی شعور شہری پریشان ہے۔شہر وہوا کی خوبصورتی اور اس سے استعفادہ حاصل کرنے کے لیے حکومت نے کچھ خوبصورت عمارات بنائیں تاکہ شہر وہوا کی خوبصورتی میں اضافہ ہو اور لوگ بھی ان سے فیض یاب ہوں بر لب سڑک لائبریری کا دفتر جو سردار سعد اللہ خان کھیتران مرحوم کی کوشش کا نتیجہ تھا۔اسے بہتر انداز میں فعال نہیں کیا گیا جو قیمتی کتب کے مطالعے سے لوگ فیض یاب ہوتے۔ زنانہ اور مردانہ ڈگری کالج 1122 کا دفتر اور پھولوں سے آراستہ فیملی پارک کا قیام مگر اخلاقی اقدار سے عاری نوجوان نسل ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کی عدم دلچسپی اور سرکاری اداروں کےچیک انیڈ بیلنس کا نہ ہونا۔سب کچھ تباہی کا عندیہ ہے۔کالج تو سٹوڈنٹس کے لیے تفریح گاہ سے زیادہ حثیت نہیں رکھتے اگر انکے اندر تعلیم ہوتی تو لوگ اکیڈیمی کی بھاری بھرکم فیسوں کے عذاب سے بچ جاتے ۔پارک کو بگڑی ہوئی نوجوان نسل نے فحاشی اور بیہودگی کا مرکز نہ بنایا ہوتا تو ہر شریف شہری اپنے بچوں کو تفریح کے لیے پارک لے اتا ۔1122 کا کام بیشک انسانی جان کے لیے کارامد ہے۔مگر ان کے لیے سہولت کا فقدان ہے ایمرجنسی کی صورت میں بازار کا ناجائز تجاوز بڑی رکاوٹ ہے عملہ ٹارگٹ ٹائم پر منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔دوسری طرف دیہاتوں کو ایمرجنسی سہولت اس لیے فراہم نہیں کرسکتا وہوا کے مضافات میں جتنی بستیاں اور گاؤں ہیں وہ رابطہ سڑکوں اور پلوں کی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں اسکے علاؤہ عوام کی بے حسی کا یہ عالم ہے۔شہر کی پرانی بلڈنگز جو شہر کا ورثہ سمجھی جاتی تھیں۔وہ مسمار کر دی گئیں اور انکے مٹریل کا کوئی علم نہیں۔1 مندر 2.ڈاک بنگلہ 3 بلوچ لیوی کا مورچہ۔4,واٹر سپلائی سکیم شہر کے اندر حفاظتی برج اور بڑے بڑے چیل دیال کے گیٹ جو خطرے کی صورت میں بند کر دیے جاتے تھے۔دوسرہ طرف بلوچ لیوی کا عملہ کلوز کردیا اگر بلوچ لیوی کا عملہ ہوتا تو روڈ ڈکیٹی اور شہر میں دن دیہاڑے چوریاں نہ ہوتیں۔5 سوشل ویلفیئر کا دفتر کلوز کردیا۔جو معذور افراد کی رجسٹریشن اور دیگر فلاحی کام کررہا تھا۔اب غریب لوگوں کو تونسہ شریف اور ڈی جی خان کے دھکے نہ کھانے پڑتے۔ آپ اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
صحافت شہر میں اب رواج پکڑ رہی ہے جو معلومات میسر ہوتی ہیں۔ان پر کوئی نہ کوئی کالم ضرور لکھتے ہیں۔شہر کے ہر ذی شعوراور درد رکھنے والوں سے التماس ہے بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔تاکہ اپنی ترقی اور خوبصورتی کو بچا سکے۔