بہاروں کے تقدس کے قائل دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ انتقال کر گئے

دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ اہل درد کی جدوجہد کرتے ہوئے درد کے فاصلے کم کر گئے انکی وفات کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھی دلی دکھ و افسوس ہوا دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کی اچانک وفات پر ممتاز سماجی و کاروباری شخصیت مرغوب علی بٹ اور فکری و علمی اور ادبی شخصیت صاحبزادہ آصف رحیم مجددی نے نہایت رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ نہایت عمدہ، باوقار اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے ان میں خلوص و محبت کی چاشنی ملنے والوں کو ہر لمحہ اپنائیت و چاہت کا احساس دلاتی وہ خلوص کے پیکر اور احترام آدمیت کے تقاضوں سے لبریز جہانباز انسان تھے انہوں نے مزید کہا کہ انسان بھلائی اور غریبوں سے محبت انسان کی زندگی کا خاصا ہیں دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کے جنازے میں لوگوں کی کثیر تعداد انکے کردار و عمل کی گواہی اور انکی لوگوں سے محبتوں کی آئینہ دار تھی
آگے چل کر انکے تاریخی پسِ منظر کو بھی قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کیا جائے گا ویسے دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کا جنم ایک فکری و علمی و ادبی گھرانے میں ہوا۔ شبیر نازشِ کو بصیرت و بصارت سے معمور شاعر قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر محبوب عالم انکے مجموعہ کلام، ادبی و فکری حوالے کے ساتھ ساتھ اضافی تراکیب، گوشہ نعت اسلام منقبت میں تلمیحات اور غزلیات کی تقصیل سے آگاہی دیتے ہیں اور رقص صبا۔۔۔۔۔۔۔ ازبر۔۔۔۔۔زرغونہ خالد زرغونے کھوسہ بلوچ کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے زرغونہ خالد زرغونے کی شاعری کا ایک مطالعہ میں تعارفی پہلوؤں اور انکے سوانحی حالات کا ذکر کرتے ہوئے شعری مجموعہ” رقص صبا ” کے تعارف میں پیش کرتے ہیں کہ انکے دادا ابو غلام جیلانی اور انکے دادا کے کزن ماسٹر محمد رمضان عطاء جنکو (عطائی) نام سے پکارا جاتا
وہ شاعری کرتے تھے اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے خط و کتابت کرنے کے حوالے کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا ایک تاریخی رباعی جو علامہ محمد اقبال نے عطائی صاحب کو تحفہ کی وہ کچھ یوں ہے
کہ
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
در حسابم را بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفے پنہاں بگیر
یہ تاریخی رباعی ہے کہ دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ رحلت کے حوالے سے اس تاریخی رباعی کو اس لئے پیش کیا گیا کہ “ماسٹر محمد رمضان عطاء” المعروف عطائی صاحب جو کہ دلنواز خان ایڈووکیٹ کے دادا تھے کس قدر لافانی فکر ہے یہ فکر ”دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ“ کی فطرت میں ان کے آبا واجداد کی فکر کا ہی تسلسل تھی اور یوں دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ نے لاء کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی تو انکی فطرت نے انہیں بھلائی کی فکر کو ہی آگے بڑھانے پر اُکسایا وہ مظلوموں، محکوموں، بے کسوں وبے بسوں اور غریبوں کے نگہبان ٹھہرے ۔۔۔۔جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ ان کو یہ ہنر اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں ملا تھا دل نواز خان نے جب لاء کی پریکٹس کا آغاز کیا تو انہی جیسی فکر سے آراستہ سید محمد اظہر ترمذی ایڈووکیٹ جیسا انکو استاد میسر آ گیا سید اظہر ترمذی ایڈووکیٹ بھی غربیوں مظلوموں اور بے کسوں و غریبوں کے ہی خیر خواہ تھے ان کے ڈیرہ غازی خان کی بار میں وکالت کے پروفیشن کو غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی فکر کے فکری تسلسل کی مہک نے دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ کو غریب و لاچار عوام کی خدمت کے ہنر سے آراستہ کر دیا تھا یون انہون نے معاشرے کے لاچار اور مجبور طبقات کو ہمیشہ انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ دھرتی پر محکوموں، مظلوموں، بے کسوں اور غریبوں کی آواز بنے۔ درد کے ماروں، دکھوں میں گھیرے طبقات کا طرف دار آئے محبتیں بانٹنے اور دکھوں میں گھرے عوام کی تکالیف کا مداوا کرنے کے لئے سرگرم عمل رہنے والا دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ اپنی ناقابل فراموش یادیں چھوڑ کر اس جہاں فانی سے رحلت کر گیا وکالت کے پروفیشن میں وہ بہترین و ممتاز شخصیت تھے
جنہوں نے محنت، لگن، جستجو اور سنجیدگی کے پہلوؤں کی بنیاد پر ترقی کی منازل کو طے کیا وہ ایک عام و معتبر گھرانے میں جنم لینے والی شہکار شخصیت تھے انہوں نے ہمیشہ انسانی اقدار معاشرے کی فلاح و اصلاح کے لئے کام کیا۔ بھائی چارہ اور خلوص انکی عادات و اطوار میں شامل تھا وہ خاموش طبع بہترین دستگیر تھےان میں ہمدردی، رواداری اور محبت کی چاشنی عام تھی وہ دکھ درد میں ہمیشہ محبت و تعاون کے امین تھے انکے چیمبر میں اکثر مظلوم طبقات کا ہی تانتا بندھا رہتا اس لئے کہ وہ کسی کو اس بات کا احساس ہی نہ ہونے دیتے کہ کسی کے پاس انکو فیس دینے کے پیشے ہیں یا نہیں کسی شاعر نے غالبا انہی کے بارے میں یوں عرض کیا کہ
بہت اداس نہ ہو شام۔۔۔ بے چراغ کہ ہم
سحر کی روشنیاں چشم تر میں رکھتے ہیں
دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ جو روشنیوں کو اپنی چشم مے تر میں رکھے اداس شاموں سے کہا کرتے کہ بے چراغ نہیں ہم سحر کا پیغام ہیں وہ جو مسکراہٹوں کے آئینوں میں چھپے درد و کرب کی اذیتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود اس کا ملال نہ کیا کرتا ہمیشہ عاجزی و انکساری کا پیکر بن کر امید و یاس کے دیپ جلائے رکھتا درد کے فاصلے طے کرتا رہا وہ ایک بہترین قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ رواداری کا پیکر تھا زندگی کافی کٹھن ہونے کے باوجود انکے احساس مروت سے مشکل نظر نہ آتی انہوں نے ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ ترین علاقے میں وکالت کے پروفیشن کو نئے انداز و افکار سے متعارف کروایا
وہ ایک تاریخ کا ایک عہد بےمثل کردار تھے محبت و ریاضت انکا شیوا تھا بڑے ہی خوش لباس، خوش اخلاق اور ذوق والے انسان تھے انہیں کبھی غصہ نہیں آیا کرتا وہ اللہ توکل پر کامل یقین و ایمان والی شخصیت تھے جس طرح کسی شاعر نے کہا ہے کہ
کچھ پانا ہےتو پستی میں رہ کے ڈھونڈ
بلندیوں پر جا کر خدا تلاش نہ کر
عاجری و انکساری کے پیکر، فکر و تمدن سے آراستہ، اخلاق کی نگہبانی کا امین، ہر سو اجالوں کا داعی، انسانوں میں فکر کی جوت جگاتا، بلند ہمت، بلند پایہ کہنہ مشق درویش، جو پستیوں میں رہ کر خدا کی تلاش کا درس دیا کرتا وہ بلندیوں پر جا کر خدا کی تلاش کا قائل نہیں تھا اجڑے دلوں میں بندگی تلاش کرتا تکبر گمنڈ سے ناآشنا رہتا اس نے ہر سو محبتوں کی بہاروں کے رنگ بکھیرے وہ اجالوں کی جستجو میں رہتا اپنے علم و کردار سے تاریکی مٹانے کے لئے کوشاں رہتا مسکرا کر ملنا اس کی عادت تھی وہ تعلق نبھانے کا حوصلہ رکھتا جہاں اس نے تعلق قائم کیا پھر اس نے کبھی بےرخی نہ برتی۔ وہ ایسے ہی طرز کا مرد وآہن تھا کہ جو اپنے اخلاص کی بدولت گل کھلانے اور بہاروں کے تقدس کا قائل تھا انتہائی باوقار سلیقہ مند کہ جو بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ ایک ایسی ہی شہکار شخصیت تھے
آہ دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ
تیرے بعد ۔۔۔۔میرے چہرے پہ کچھ نہ تھا
بس اک دھندلا سا تبسم۔۔۔۔۔ اک تھکی سی دلیری
حقائق کے اس جاری تسلسل پر غور کریں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اچھے انسان کی کچھ قدریں ہوتی ہیں جو معاشرے کو سربلندی سے ہمکنار کرتیں ہیں پھر سچائی، اخلاص، قومی یکجہتی، محبت، خیر، اخلاق، احترام آدمیت اور بہت کچھ واضح کر دیا گیا ہے اسی تصور کے پہلو کچھ یوں بھی بیان کئے جا سکتے ہیں کہ اندھیرے اجالوں کی امید ہوا کرتے ہیں اگر امید باقی نہ رہے تو اجالے بھی اندھیرے لگتے ہیں
دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ ایک امید تھے انکے جانے سے جن لوگوں کی امید چلی گئی لامحالہ انکی زندگی میں اندھیر ہو گیا ایسا ہی حال آجکل کچھ وطن عزیز پاکستان کا ہے کہ یہاں
”کوئی امید بر نہیں آتی“
والی صورتحال ہے کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ جہاں انسان کو امید کی کرن دکھائی دے بہرحال کچھ لوگ تھے اور ہیں جو لوگوں میں امیدوں کے چراغوں کو روشن کئے رکھتے ہیں ان میں ایک نام دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ کا بھی تھا لامحالہ انکے جانے کے بعد انکے چاہنے والوں کی تو امیدیں کھو گئیں ہیں
دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ میں جا بجا امید کے پہلو نظر آیا کرتے وہ لوگوں کے مزاج بدلنے انکی مشکلات و مصائب میں مددگار ہوتے۔ وہ نفرت، اشتعال، شرانگیزی، تعصب، تنگ نظری، فریب و ناانصافی کے ساتھ ساتھ ظلم و وحشت کا پاس کرتے ہوئے عام لوگوں میں محبتوں کے فروغ پر کام کرتے وہ سمجھتے کہ اسی فکری و علمی جدوجہد سے سماج کی ہیت کو بدلا جا سکتا ہے وہ عام طبقات میں انصاف کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے کوشاں رہتے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے کیونکہ بعض لوگ جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے اور وہ ارتقاء کی فکر کا تذکرہ کرکے جدوجہد سے بھاگتے ہیں بے شک ارتقاء اپنی منازل طے کرتا ہے اور بے شمار تبدیلیاں بھی رونما کرتا ہے مگر دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ افضل جدوجہد کی فکر تھے انکو جدوجہد کا ناقابل فراموش استعارہ قرار دیا جا سکتا ہے
ڈیرہ غازی خان بار میں دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کا خلا کبھی نہ بھر پائے گا مہر فدا حسین ایڈووکیٹ سے گزارش ہے کہ وہ غریب پرور، انسان دوستی کی دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کی روایات کو آگے بڑھائیں ویسے مہر فدا حسین ایڈووکیٹ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بھی مجبور و بے بس طبقات کی آواز بنتے ہیں مزید اگر وہ غریبوں کی دادرسی کے عمل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے تو دلنواز خان ایڈووکیٹ کے تاریخی جنازے کا مشاہدہ کرلیں انکی غریب پروری نے انکو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا انسان فنا ہے کردار و عمل ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
مزید دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان سے گزارش کروں گا کہ دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ کی یاد میں ریفرنس کا انعقاد کیا جائے انکی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے بار ایسوسی ایشن ڈی جی خان نے کردار ادا کیا تو موجودہ فکری قحط الرجال میں دلنواز خان ترین ایڈووکیٹ پر کیا جانے والا ریفرنس جہاں اجالے میں اندھیروں کا ماتم ہوگا وہاں تہذیب و فکر اور تمدن کے ریزہ ریزہ ہوتے تصور کی حقیقتوں کو بھی بےنقاب کرنے کا آئینہ دار ثابت ہوگا۔
بے شک ہم فکر و ادب اور کلچر و اقدار کے ساتھ ساتھ روایات کے فروغ سے ہی سماج کی زوال پذیری کا راستہ روک سکتے ہیں ۔دل نواز خان ترین ایڈووکیٹ کی ناقابل فراموش سیاسی و سماجی اور فکری و علمی اور ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا دل کو موہ لینے والا نہایت مہربان شخص دلنواز خان ایڈووکیٹ اب ہم میں بے شک نہیں رہا وہ اپنے سفر زیست میں داخل ہو چکا ہے۔
کل نفس ذائقتہ الموت۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ دلنواز خان ایڈووکیٹ کا سفر آخرت آسان فرمائے اور اسکی قبر کو جنت کی معطر خوشبوں سے بھر دے اور پیارے حبیب مصطفی ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور صحابہ کی قربتوں سے نوازے انکی مغفرت اور درجات بلند فرمائے آمین ثمہ آمین