وزیر صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر نے تصدیق کی ہے کہ پنجاب میں خسرہ سے اب تک 18 اموات ہوچکی ہیں۔ یہ صوتحال سنگین ہے اور جو بھی غلط ہو رہا ہے اس کی زمہ داری پی ٹی آئ حکومت پر ڈال کر حکومت اپنی زمہ داریوں سے بری الزمہ نہی ہو سکتی یہ موجودہ حکمرانوں کی ناکامی ہے اور ابھی تک اس معاملے کو سنجیدہ نہی لیا جارہا ابھی تک ملک میں پولیو کیسز کے سامنے آنے کا سلسلہ ختم نہی ہوا کہ خسرہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو سیاسی محاذ آرائ سے ہی فرصت نہی ملتی خسرہ کے بڑھتے ہوئے کیسز صرف پنجاب نہی بلکہ کراچی خیرپور سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھی مسلسل سامنے آرہے ہیں صوبائ وزیر صحت نے کہا ہےکہ پنجاب میں خسرہ سے اب تک 18 اموات ہو چکی ہے، جب کہ پنجاب بھر میں خسرہ کے بچوں کی تعداد 3200 سے ذیادہ پورے سال میں نہیں تھی، گوجرانوالہ میں بھی خسرہ کے بہت ذیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، لیکن ہم دو ہفتوں کے اندر پورے پنجاب کے بی ایچ یوز میں ڈاکٹرز تعینات کردیں گے۔وزیر صحت پنجاب نے صوبے میں خسرہ کیسز بڑھنے کی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف حکومت میں ویکسینیشن 90 فیصد تھی لیکن پچھلی حکومت میں بچوں کی ویکسینیشن پر توجہ نہیں دی گئی تاہم اب ہم جنگی بنیادوں پر صحت کے شعبے پر کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ چند روز قبل پنجاب میں شیخوپورہ، پتوکی اور کبیر والا میں خسرہ کے کیسز سامنے آئے تھے اور خاص طور پر کبیر والہ میں خسرہ کے باعث 5 بچوں کی اموات ہوئی تھی جس کے بعد سی ای او ہیلتھ خانیوال ڈاکٹرعبد المجید کو معطل کردیا گیا تھا اور ڈپٹی کمشنر خانیوال وسیم حامد کو اس اعلیٰ کارکردگی پر اس سے بڑے اور اہم ضلع ملتان کی ڈپٹی کمشنری دان کر دی گئی ہےپولیو خسرہ اور دیگر موزی بیماریوں کے خاتمے کے لیے ورلڈ بینک اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اربوں روپے اور ویکسین پاکستان کو فراہم کی جاتی ہے ریاست پاکستان نے وہ ویکسین بچوں کو صرف پلانی ہوتی ہے اور اس کے اخراجات بھی عالمی ادارے ادا کرتے ہیں لیکن یہ کام بھی رہاست پاکستان کر نہی پاتی اربوں روپے سالانہ کی گرانٹ کا کچھ پتہ نہی چلتا اس سے جو گاڑیاں ویکسین کے عملے کے لیے لینی ہوتی ہیں اس کے بجائے افسروں کی گاڑیاں اجاتی ہیں اور یہ ںیماریاں ہمارے ملک کو چاٹ رہی ہیں ان کیسز کے سامنے انے کے بعد ناگزیر ہے کہ ریاست پاکستان موجودہ اور گزشتہ اپنی ہی حکومت کے دوران عالمی اداروں کی جانب سے ان بیماریوں کے خاتمے کے لیے فراہم کی کانے والی امداد اور اس کے استعمال کا آزادانہ آڈٹ کرائے اور ویکسین کو بھی چیک کیا جائے کہ ایسا تو نہی عالمی اداروہ صحت جو ویکسین فراہم کرتا ہے وہ بڑے نجی اداروں کو جارہی ہو جو انتہائ مہنگے ریٹ پر یہ ویکسین لگھاتے ہیں اور عام عوام کے بچوں کو پانی پلایا جارہا ہے کس کے باعث یہ وبائ امراض ختم ہی نہی ہورہے۔