ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) نے ساہیوال واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جب کہ عدالت عالیہ نے درخواست میں ترمیم کی اجازت دےدی ہےصدر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر شبیر نیازی نے ایڈوکیٹ نوشاب خان کی وساطت سے درخواست دائر کی،درخواست میں حکومت پنجاب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے صدر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اصل مسئلہ زمینی صورتحال ہے، ینگ ڈاکٹرز بھی ہڑتال جاری رکھنا نہیں چاہتے، جسٹس شجاعت علی خان نے صدر ینگ ڈاکٹرز سے مکالمہ کیا کہ آپ کو چاہیے کہ اپنی ڈیوٹی کریں ، ہمیں گارنٹی دیں کہ آپ ہڑتال ختم کریں گے، ہم چاہتے ہیں آپ کل یہاں پر نظر نہ آئیں، ہسپتال میں ہوں۔دائر درخواست پر سماعت کے دوران وکیل وائے ڈی اے کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ پورے پنجاب میں حکومت کی جانب سے غیر قانونی اقدامات پر ینگ ڈاکٹرز تحفظات کا شکار ہیں، جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ لگتا ہے آپ نے درخواست بہت جلدی میں ڈرافٹ کی ہےعدالت نے کہا کہ جس نے آپ کے خلاف فورس کا استعمال کیا، آپ نے کسی کو فریق نہیں بنایا، جسٹس شجاعت علی خان نے ریمارکس دیے کہ آپ درخواست میں ترمیم کر کے لے آئیں۔ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ساہیوال ہسپتال واقعے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا، درخواست میں استدعا کی گئی کہ ساہیوال واقعے پر تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے، ساہیوال ہسپتال کے واقعے کے بعد محکمہ صحت کی جانب سے کیے گئے اقدامات غیر قانونی قرار دیے جائیں،درخواست کے حتمی فیصلے تک پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کو ختم کرنے کا حکم معطل کیا جائے، ڈاکٹرز کی ایڈہاک شپ ختم کرنے کا اقدام بھی کلعدم قرار دیا جائے۔ جون کو ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے بچہ وارڈ میں آگ لگنے کے باعث 11 نومولود جاں بحق ہوگئے تھے، وارڈ میں لگی آگ کے دوران ہسپتال اسٹاف اور سیکیورٹی گارڈز نے جان پر کھیلتے ہوئے بچوں کو ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کیا تھا۔وزیراعلیٰ پنجاب نے غفلت برتنے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) سمیت 4 سینئر ڈاکٹرز کو برطرف کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے، ہسپتال کے ایم ایس اختر حسین، ڈپٹی ایم ایس ڈاکٹر عثمان انور، اسسٹنٹ ایم ایس ڈاکٹر عمر اور ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عمران حسن کو برطرف کیا گیا جس پر لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کی جانب سے ہڑتال کردی گئی جو تاحال جاری ہے۔اس سے قبل ہسپتال عملے کی جانب سے بچوں کی موت کو طبی وجوہات کے باعث بتائی گئی تھیں اور ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی انکوائری میں بھی ’سب ٹھیک‘ قرار دیا تھاتاہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور آزادانہ انکوائریوں کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ آگ کے دوران بچوں کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیے جانے کے بعد بچوں کی حالت مزید خراب ہوئی تھی، جب کہ آگ لگنے والے آلات بھی کام نہیں کررہے تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آزادی انکوائریوں کی رپورٹس، سی سی ٹی فوٹیج اور موبائل فوٹیج دیکھنے کے بعد ان ڈاکٹرز کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔