سرائیکی وسیب کا ثقافتی پھل پیلھوں

ہم اللہ کی پاک ذات کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کیوں کہ اللہ نے پاکستان کو بے پنا نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم سرائیکی وسیب کی بات کریں توجہاں گندم اور کپاس اس خطے کا خاصہ ہے وہیں ہرے بھرے کھیت،کینوں،کھجور،جامن،فالسہ، انار اورپھلوں کے بادشاہ آم کے خوبصورت باغات کی بدولت یہ خطہ جنت سے کم نہیں۔ہماری دھرتی ہر موسم میں مزے مزے کے تحفے عنایت کرتی ہے جن سے نہ صرف ہم لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں۔موسم گرما میں یہاں کے لوگوں کو جہاں دیگر پھل اپنی مٹھاس کی چاشنی بخش رہے ہوتے ہیں وہیں جال کے درخت کا پھل پیلھوں (پیلو) بھی پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ جال کا درخت پنجاب، سندھ، شمال مغربی صوبہ سرحد اور ایران کے خشک مقامات میں پایا جاتا ہے۔یہ پاکستان میں روہی،تھل اور دامان کے علاقوں میں پیدا ہونے والاخود رو درخت ہے۔ ہر خطے اور علاقے میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔یعنی اردو اوربنگالی میں پیلو، ہندی میں پیل،سرائیکی وسیب میں اس درخت کو جال (جالھ) پھل واحد کو پیلھ اور جمع کو پیلھوں، فارسی میں مسواک،سندھی میں اس درخت کو کھبڑاور پھل کو پِیروں، عربی میں اس درخت کو اراک اور پھل کو بریر کہتے ہیں۔ انگلش میں اسے ٹوتھ برش ٹری کہتے ہیں اور اس کا بوٹانیکل نام سلواڈورا پرسیکااور سنسکرت میں اسے کرپھل اور پیلوکہتے ہیں۔لفظ پیلو سنسکرت سے اردو میں داخل ہوا۔یہ دنیا کے قدیم درختوں میں سے ایک ہے۔ پیلھوں کا درخت بہت گھناہوتا ہے اور اس کی شاخیں جال کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ بڑے اور گھنے پیلھوں کے درخت میں بعض اوقات جانور بھی پھنس جاتے تھے۔اس کی جڑ اور ٹہنی کا مسواک استعمال کیا جاتاہے۔یہ مسواک دانتوں کو صاف اور مضبوط رکھتا ہے۔جال کے درخت پرمارچ،اپریل میں پھل لگنا شروع ہوتا ہے جو سبزی مائل سفید ہوتا ہے۔ مئی اور جون میں اس کا پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ صحرائی لْو اس میں شیریں رس بھرتی ہے اور یہ قدرتی مٹھاس صحرا کے پھل کو خوش ذائقہ بنا دیتی ہے۔ پیلھوں کا رنگ سبز،سفید ،لال ،زرد ،دودھیا،بھورا اور سیاہ ہوتا ہے۔ ان خوبصورت رنگوں کی نسبت سے ہی درختوں کوبگڑ (سفید)رتڑ(لال) وغیرہ کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ اس کا پھل چنے کے د انے کے برابر،بہت ہی نازک اور لذیذہوتاہے۔بچے، بوڑھے، جوان ،مرد،عورتیں جال کے نیچے اکٹھے ہو کر پیلھوں کھاتے ہیں۔اس درخت کی چھائوں بہت گھنی ہونے کی بنا پر روہیلے دوپہر کو اس کے سائے تلے آرام یعنی ڈوپہرہ کرتے ہیں۔چولستانی عورتیں اس کے سائے میں بیٹھ کر پنکھے، گِندیاں اور ٹوکریاں بناتی ملتی ہیں۔ لیہ کی تحصیل چوبارہ سے جھنگ کی طرف جائیں تو کپوری اڈا چیک پوسٹ کے قریب ہمیں جال کا ایک بہت بڑا جنگل نظر آتا ہے جو کہ تقریباً 20ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق یہ دنیا کے قدیم ترین درختوں میں سے ایک ہے۔ پیلھوں کے نام کے ساتھ ہی تخیل میں سرائیکی وسیب کی ایک مکمل تصویر کا آنا پیلھوں کے متعلق مزید جاننے کیلیے ایک عجیب تجسس پیدا کرتا ہے۔ یہ سب اس امر کی دلیل ہے کہ سرائیکی وسیب کا نمائندہ علامتی پھل پیلھوں ہے جو کہ سرائیکی وسیب کی مختصر وقت میں ایک مکمل تصویر بنانے کیلئے علامت کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔ سرائیکی وسیب اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اس کی شاخیں کھردری اور ابھار والی ہوتی ہیں اسکے پتے قدرے ڈنڈی نمااور نوک دار ہوتے ہیں جو کہ ایک جھاڑی سے مناسبت رکھتے ہیں بعض لوگ اسے جھاڑی ہی شمار کرتے ہیں پیلھوں کے ذریعہ سے روہی کے باسی لوگوں کاروزگار بھی منسلک ہے۔ پیلھوں کوسرائیکی وسیب کا ثقافتی پھل اس لیے کہا گیاہے کیونکہ پیلھوں کے تیارہونے کے ساتھ ہی روہی میں ایک میلے کاسماں ہوتاہے اور ہر طرف خوشی کا سماں بندھ جاتا ہے۔سارے روہیلے پیلھوں چننے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ایک ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں دوست احباب کوپیلھوں کھانے اور چننے کی باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ثقافتی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید سئیں اس پھل کواپنی شاعری میں مختلف مقامات پربڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
پیلوں چنڈیں بوچھن لیراں
چولا وی تھیا لیر کتیراں
گِلڑے کرن پچار
سینگیاں سکیاں نی وے
پیلوں چنتے ہوئے کسی کا کا دوپٹہ پھٹ جاتا ہے، کسی کا کرتہ تار تار ہو جاتا ہے اور سہیلیوں کی ہنسی مذاق کا نشانہ بن جاتی ہے۔سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ملتان بہاء الدین زکریا یونیورسٹی جو کہ سرائیکی خطہ اور اس کی ثقافت کے ساتھ ساتھ ادبی تحقیق وتخلیق کے حوالہ سے ایک مکمل ادارہ ہے اور یہ سرائیکی خطہ کی قدامت اور اسکے ادب کے حوالے سے بھرپورتحقیق کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ سرائیکی زبان اور اس کے ادب و ثقافت سے متعلق کئی ریسرچ پروجیکٹ مکمل کرواکے کتابی صورت میں چھاپ چکا ہے۔ اور کئی تحقیقی منصوبے ابھی زیرتکمیل ہیں۔ اس ادارہ کے زیر اہتمام بیک وقت شعبہ لسانیات، شعبہ آثارقدیمہ،شعبہ سرائیکی ، ابلاغیات اور خواجہ فرید چیئر کام کررہے ہیں۔ سرائیکی ایریاسٹڈی سنٹر میں اس وقت بی۔ایس پہلا سمسٹر، بی۔ایس پانچواں سمسٹر اور ایم۔فل کی تعلیم دی جارہی ہے ۔ سرائیکی ایریا سرائیکی سنٹر کی جانب سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پی۔ایچ۔ڈی کی کلاسز کا بھی باقاعدہ آغاز کیا جائے اور مستقبل قریب میں پی۔ایچ۔ڈی کی باقاعدہ کلاسز شروع ہو جائیں گی۔ شعبہ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اختر صاحبہ اپنی محنت اور لگن سے شعبوں کی ترقی اور ترویج کے لئے بھرپور کام کر رہی ہیں جس کی ایک مثال سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں خواجہ فرید پارک کا قیام ہے۔ انہوں نے اس پارک میں وہ تمام درخت اور پودے لگوائے ہیں جن کا ذکر خواجہ غلام فرید کی شاعری میں ملتا ہے۔ اس میں خاص طور پر پیلھوں کا درخت قابل ذکر ہے۔ حکال ہی میں مورخہ 08 جون کو پیلھوں ڈے کی مناسبت سے سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے سیمینار ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کی سربراہی ڈائریکٹر سرائیکی ایریاسٹڈی سنٹر ڈاکٹر نسیم اختر نے کی۔ شعبہ کے طلباوطالبات کی جانب سے مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا تقریب میں ڈاکٹر نسیم اختر کی جانب سے مہمانوں اور طلبا کو خاص طور پر پیلھوں پیش کیے گئے۔ایم فل سکالر دلاور حسین دلبر نے پیلھوں کے حوالے سے خواجہ غلام فرید کی کافی ترنم میں گا کر سماں باندھ دیا۔اس کے ساتھ ہی سرائیکی شاعر رمضان کاوش نے پیلھوں ڈے کی مناسبت سے اپنا کلام پیش کرکے خوب داد سمیٹی۔شعبہ سرائیکی کے استاد محمدعارف رجوانہ نے تقریب کے شرکا سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پیلھوں غربت اور افلاس کی چکی میں پستے روہیلیوں کے لیے ذریعہ معاش بھی ہے اور انکی باہمی محبت کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے ۔ شعبہ کے استاد ملک عمار یاسر کھاکھی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پیلھوں سرائیکی وسیب کا ایک پھل ہی نہیں بلکہ پیلھوں خواجہ فرید جیسے صوفیاء کا عشق بھی ہے جس کی جھلک ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہے۔آخر میں ڈاکٹر نسیم اختر صاحبہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیلھوں سرائیکی وسیب کا ایک پھل ہی نہیں بلکہ اس پھل کی آمد سرائیکی وسیب میں خوشیوں کی آمدکی علامت ہے۔ انہوں کہا کہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر انشاء اللہ مستقبل میں بھی ایسی تقریبات کاانعقاد کرتا رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ تقریب کے کامیاب انعقادپرمحمد عارف رجوانہ ، عمار یاسر کھاکھی، وقار اسلم اور مقسوم اصغر کوخراج تحسین پیش کرتی ہوں اور آنے والے معزز مہمانوں اور سکالز کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔ڈاکٹر نسیم اختر کے اظہار خیال کے بعد طلبا اور سکالرز نے شعبہ کے ہر دل عزیز استاد عمار یاسر کی نگرانی میں سرائیکی جھمر پیش کی۔ طلباء اور سکالرز نے ایک دوسرے کو پیلھوں پیش کیے اور تقریب کو ہرطرح سے یادگار بنانے میں اپنا حصہ شامل کیا۔ اس خوبصورت تقریب میں شرکت کرنے والے طلبا میں رانا ساجد محمود، رمضان کاوش، حسیب کلاچی، ساجد ادیب، صفی اللہ، محمد تیمور، ثوبان خور شید، شہلا اقبال، انیلہ شاہین، فرزانہ، رومیسہ، عتیق الرحمان سعدیہ رشید،ارم مصطفی، مدیحہ عباس، احمد حسن، دلاور حسین دلبر ،حامد لغاری اور ان کے علاوہ کثیر تعداد میں طلبا وطالبات نے اس رنگا رنگ تقریب میں بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر شرکا سرائیکی ثقافتی پروگرامز سے بھرپور لطف اندوز ہوئے اور ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اختر اور اساتذہ کے ہمراہ تصاویر بھی بنوائیں۔اس موقع پر طلبا کاکہنا تھا کہ ایسی تقریبات ناں صرف تفریح سے بھرپور ہوتی ہیں بلکہ بہت ساری معلومات بھی فراہم کرتی ہیں جس سے سرائیکی خطہ کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔اس رنگارنگ اور یادگار تقریب کے اختتام پر طلبا وطالبات نے میڈم ڈاکٹر نسیم اختر کی اس کاوش کوسراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر زور دیاکہ سرائیکی ثقافت کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے اس لیے اس طرح کی تقریبات کا انعقاد انتہائی ضروری ہے۔