مافیا کی جانب سے مظفر گڑھ پولیس کو بد نام کرنے کی سازش نا کام
روہیلانوالی میں قتل کیس میں کرپشن کی انکوائری مکمل , کرپشن میں ملوث روہیلانوالی تھانہ کا عملہ نوکری سے فارغ ریڈر ڈی پی او عثمان خان انکوائری میں مکمل طور پر بے قصور قرار , مافیا کی جانب سے ریڈر ڈی پی او کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا کر بد نام کرنے کی کوشش بے سود ، حقائق منظر عام پر آگئے
قارئینِ کرام میں آج آپ کو تھانہ روہیلانوالی میں ہونے والے قتل کیس میں پولیس کی کرپشن اس کے بعد اسکی اعلیٰ آفیسران کی جانب سے ہونے والی انکوائری رپورٹ اور اس انکوائری کی روشنی میں ہونے والی سزاؤں کے بارے میں تفصیلات بتانے جارہا ہوں, چند ماہ قبل تھانہ روہیلانوالی کی حدود پل جڑھ رتھیب کے مقام پر مکان کے تنازعہ پر ایک قتل ہوتا ہے جس کا مقدمہ نمبری 721/23 تھانہ روہیلانوالی میں درج کیا جاتا ہے اور اس مقدمہ کی تفتیش سب انسپکٹر محبوب اللہ کو دی جاتی ہے اور محبوب اللہ سب انسپکٹر کی طرف سے اس مقدمہ میں حسین بخش ٹھیکےدار اور اس کے ساتھ مزید سات افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے گرفتاری کے بعد ان افراد سے مبینہ طور پر روہیلانوالی پولیس ڈیل کر کے ایک کروڑ سے زائد رقم حسین بخش ٹھیکےدار سے لے لیتی ہے یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ پیسے کس نے لئے تو میرے ذرائع کے مطابق اس رقم میں سے ایک بڑا حصہ سب انسپکٹر محبوب لے اڑتا ہے اس کے بعد اس کی جگہ آنے والے سب انسپکٹر کامران سیف باقی پیسے لے اڑتے ہیں یہ رشوت کی رقم کا حصہ مہتمم تھانہ روہیلانوالی کو بھی دیا جاتا ہے جب ان تمام چیزوں کا ڈی پی او مظفر گڑھ سید حسنین رضا کو بزریعہ سورس پتہ چلتا ہے تو ڈی پی او مظفر گڑھ جو کہ ایک با اصول اور با کردار شخصیت ہیں فوری طور پر مہتمم تھانہ زاہد محمود لغاری اور تفتیشی آفیسر کو معطل کر کے کلوز لائن کر کے انکے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیتے ہیں محکمانہ کاروائی کے تحت انکوائری اعلیٰ پولیس آفیسران کی جانب سے کی جاتی ہے جس میں مہتمم تھانہ زاہد لغاری اور تفتیشی آفیسران مقدمہ ہذا کو نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے اسی طرح اس سکینڈل میں ملوث کرپٹ پولیس آفیشلز اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یہی چیز ان کرپٹ آفیشلز کو ناگوار گزرتی ہے کہ ڈی پی او مظفرگڑھ نے انکو انکے انجام تک پہنچا دیا ہے میرے ذرائع کے مطابق یہی کرپٹ پولیس آفیشلز اپنے ٹاوٹز اور مافیا قسم کے لوگوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد مہم چلوا دیتے ہیں کہ اس معاملہ میں ڈی پی او مظفرگڑھ کا ریڈر عثمان خان چانڈیہ بھی ملوث تھا , ڈی پی او کے ریڈر کے خلاف مہم چلانے کا مقصد ڈی پی او مظفرگڑھ کو بد نام کرنے کی ایک سازش تھی , لیکن یہ مافیا قسم کے لوگ اس سازش میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ انکوائری میں ڈی پی او مظفرگڑھ کے ریڈر کا نام تک موجود نہ تھا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی شواہد ملے اس معاملہ پر اور نہ ہی ریڈر ڈی پی او کو انکوائری ٹیم کی جانب سے کوئی سزا دی گئی بعض لوگ اب یہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ڈی پی او مظفرگڑھ کے ریڈر کو تبدیل کردیا گیا , جی بلکل تبادلہ کیا گیا ہے تبادلہ تو نوکری کا حصہ ہوتا ہے عثمان خان چانڈیہ کو ریڈر ڈی پی او کی بجائے خدمت مرکز میں تعینات کردیا گیا ہے جو کہ نوکری کا حصہ ہے اگر ریڈر ڈی پی او اس کرپشن میں ملوث ہوتا تو اس کو خدمت مرکز لگانے کی بجائے نوکری سے فارغ کیا جاتا اور سزا دی جاتی, قارئینِ کرام میں یہاں اپکو تھوڑا سا عثمان خان چانڈیہ کے بارے میں بتاتا چلوں یہ ایک انتہائی شریف النفس انسان ہیں اور باریش ہیں انکے کیرئیر کی بات کروں تو عثمان خان چانڈیہ اس سے قبل کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور پھر اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں انتہائی ایمانداری کے ساتھ اپنی خدمات پیش کر چکا ہے ان کو سوشل میڈیا پر ایک سازش کے تحت بدنام کیا گیا جس کی جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے اور میں آخر میں ڈی پی او مظفرگڑھ سید حسنین رضا کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے کرپشن میں ملوث کالی بھیڑوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہمیں ڈی پی او مظفر آپ پر فخر ہے آپ جیسے آفیسر ہی اس ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اللہ پاک اپکو مزید کامیابی اور ترقی عطا فرمائیں تاکہ آپ ہمارے ضلع مظفرگڑھ کی مزید خدمت کرسکیں۔