موسمیاتی تبدیلی آرام دہ زندگی کو مشکل بنا رہی ہے

ترجمہ:حنا بیگ
زیادہ تر متمول شہری آبادی اپنے آپ کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ سمجھتی ہے اور اسے ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے جس سے دیہی علاقوں کو نمٹنا پڑتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی کچھ مثالیں پیش کرنا چاہوں گا مثال کے طور پر بنگلہ دیش کے دیہی علاقے جہاں پہلے فصلیں اگائی جاتی تھیں، اب ان کو نمکیات کی وجہ سے ترک کرنا پڑا ہے۔ پناہ گزینوں کی کشتیاں شمالی افریقہ سے جنوبی یورپ کے ساحلوں تک پہنچ رہی ہیں جن میں زیادہ تر لوگ شدید گرمی سے بھاگ رہے ہیں۔ اس سال کے فوٹو جرنلزم ایوارڈ کے فاتح کی لی گئی تصاویر یا فرنٹ لائن میگزین میں شائع ہونے والی سدیپ میتی کی تصویریں جو گنگا اور اس کی معاون ندیوں کے کٹاؤ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں دیہاتیوں کی حالت زار کو ظاہر کرتی ہیں۔لیکن گزشتہ چند مہینوں میں شہری ہندوستان نے بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ دہلی میں اس سال درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس کو عبور کر گیا، جب کہ سال 2023 میں گرمی کی لہر کے مجموعی دنوں میں سے دو تہائی دن ملک کے جنوبی اور مشرقی حصوں کے تھے۔ گزشتہ ہفتے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ نے اناٹومی آف اینفرنو کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں سے ایک پریشان کن نتیجہ یہ ہے کہ شہروں میں اب اتنی ٹھنڈ نہیں پڑ رہی جس طرح 20 سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہ خاص طور پر تشویشناک ہے کیونکہ رات کا درجہ حرارت پہلے جیسا کم نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کا بحران مزید سنگین ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اے سی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جس سے عموماً غیر شفاف توانائی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔
گرمیوں میں ہندوستانی شہر بھٹی بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ امیر ترقی یافتہ آبادی بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت متاثر ہو رہی ہے۔ جس طرح بھارت میں ٹماٹر اور پیاز کی فصلوں کے ساتھ ساتھ اناج کی پیداوار گزشتہ سال گرمی کی لہروں یا غیر وقتی شدید بارشوں سے متاثر ہوئی تھی، اسی طرح کے حالات جنوبی یورپ میں فصلوں کو متاثر کر رہے ہیں، جہاں شراب، انگور اور زیتون کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا اور ویتنام میں بھی کافی کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ اس ہفتے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیتون کے تیل اور کوکو کی قیمتیں کس طرح آسمان چھو رہی ہیں، جب کہ عالمی شراب کی پیداوار 1961 کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
ہم شراب اور چاکلیٹ کے بحران کا سامنا کر سکتے ہیں لیکن خاص طور پر بندوستانی شہروں میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں کمی کا فرق اور نمی میں اضافہ صحت کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ملک میں بہت سی اموات کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے باوجود عام انتخابات میں یہ مسئلہ مشکل سے زیر بحث آیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ موسم گرما گزرنے کے بعد ہمارے روزمرہ کے رویے میں زیادہ تبدیلی نہیں آتی۔ ہم اے سی کا استعمال اس طرح کرتے ہیں جس طرح ایک نودولتیہ اپنی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ بانگ کانگ جیسی جگہوں پر عوامی مقامات پر اے سی کا درجہ حرارت 25 ڈگری سیلسیس کے قریب رکھنے کی ہدایات جاری کی جاتی ہیںیہ ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سورج کی روشنی بہت زیادہ ہے اور جس کا مقصد فوسل فیول کو کم کرنا ہے، گھروں میں سولر پینل كم استعمال ہوتے ہیں جبکہ کولمبو میں میں نے دیکھا کہ بڑے گھروں سے لے کر قریبی سپر مارکیٹوں تک ہر چست شمسی پینل سے روشن تھی۔ اس کے برعکس، بنگلورو میں جہاں میں رہتا ہوں، شہری افراتفری اور گرمی برقرار ہے۔ گزشتہ ماہ لندن سے سنگاپور جاتے ہوئے ایک طیارہ خوفناک فضائی خرابی میں پھنس گیا تھا، جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی تھی۔ ایسا سطح کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ہمیں ابھی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لینی چاہیے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری آرام دہ زندگی کو مشکل بنا رہی ہیں۔
راہول جیکب نامور صحافی اور برطانیوی اخبار فنانشل ٹائمز کے سائوتھ چائنا کے بیوروچیف ہیں