موسمیاتی تبدیلی اور وسیب کے آم ۔۔۔۔!!

ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے اہم شہر ہے۔ یہ پنجاب کے زرعی شہر کے طور پر معروف ہے۔ جہاں بڑی تعداد میں رقبے پر مختلف قسم کی فصلیں، پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ ملتان پنجاب میں آم کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ہے اور پاکستان کے مینگو سٹی کے نام سے مشہور ہے۔ ملتان اور ساہیوال کا چونسہ آم دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ اس کی برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے شیر شاہ سوری کے دور حکومت میں افزائش ہوئی ۔ یہ پھلوں کا بادشاہ گردانا جاتا ہے ۔ باغبانی کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آم کے باغات 59,109 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، یہ 5.57 ٹن فی ہیکٹر یا 56.36 من فی ایکڑ پیداوار کے ساتھ 329,300 ٹن پیداوار ہے۔حالیہ سیزن میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آم کی ابتدائی افزائش کے دوران موسم ٹھنڈا رہا ۔جس کی وجہ سے آم کی بڑھوتری رکی رہی۔ پھر یکدم سے موسم گرم ہوا اور آم نے کچھ رنگ پکڑنا شروع کردیا۔ باغبان نے یہ دیکھے بغیر کہ کیا آم کے برکس یعنی مٹھاس اتنی ہوچکی ہے کہ اسکو توڑ کر پکایا جا سکے ۔ اسکی توڑائی شروع کردی۔ یاد رہے کہ آم کو توڑ کر پکانے کے لیئے توڑتے وقت اسکے برکس ( مٹھاس) کی حد اتنی ہونی چاہیئے کہ آم کو مصنوعی طریقہ سے پکانے پر آم میٹھا ہوسکے۔ ہر قسم کے لیئے برکس کی مقدار علیحدہ ہوتی ہے اور ایک خاص میٹر کی مدد سے اسکو پودے پر ہی چیک کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے آم کی توڑائی کے وقت اسکے اندر برکس کی مطلوبہ مقدار نہ تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ نہ تو ہمارے ”مایہ ناز سائنسدانوں“ نے باغبان کو اس کے بارے میں اگاہ کیا اور نہ ہی ہمارے ایکسپورٹر نے ضرورت محسوس کی کہ آم کی توڑائی سے پہلے اسکے برکس چیک کر لیں۔ بس حسب روائت کچے آم میں پڑیاں رکھ کر پے درپے کنٹینر لوڈ کردیئے۔ جب مال اپنے اپنے مقاموں پر پہنچے تو رنگ تو پکڑ چکے تھے لیکن بد مزہ اور پھیکے۔ جسکی وجہ سے ایکسپورٹرز کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ سوال یہ زہن میں آتا ہے کہ پنجاب میں مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک فل فلیج ادارہ موجود ہے جو کہ ماہانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں بٹور رہا ہے یہ کس مرض کی دوا ہے۔ اسکو موسمیاتی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں۔؟ کیا یہ ادارہ صرف امب لین واستے بنایا ہوا ہے؟ کیا اس ادارے کو بروقت باغبان حضرات اور ایکسپورٹر کو گائڈ لائن فراہم نہی کرنی چاہیئے تھیں۔ ہمارے ہاں وطیرہ بن چکا ہے کہ ہمارے محکمے سوئے رہتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر واویلہ مچا کر گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ سارے محکمے مانیٹرنگ پالیسی کو اختیار کریں۔ اس بدلتے موسموں کا مقابلہ کرنے کے لیئے ریسرچ کے ساتھ ساتھ ایڈوائزری سروس بھی شروع کریں تاکہ عوام کو نقصانات سے بچایا جا سکے۔