پاکستان کی ریاستی علامات، قومی استعارے اور ہیروز: بے توقیری کی دھول میں گم

کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے میں قومی علامات اور استعاروں کو ملی جوش و جذبے اور فخر و انبساط سے اپنا کر انہیں سینے سے لگایا جاتا ہے اور ان کی قدر کی جاتی ہے لیکن پاکستانی سماج میں قومی تاریخ اور ادب و ثقافت کے حوالے سے عوام میں آگہی نہ ہونے اور متعلقہ حکومتی اداروں کی اجتماعی بے حسی کے باعث پاکستان کی قومی علامات اور استعارے بے قدری اور گم نامی کی دھول میں گم ہو کر رہ گئے ہیںجس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بے ہنگم ترقی اور شتر بے مہار جدیدیت کے دوش پر سوار اداس نسلیںقوم ملک سلطنت کے عالی مرتبت استعاروں کی قدر و منزلت اور پہچان سے ہی عاری نظر آتی ہیں۔کسی بھی ملک کی ریاستی علامت اس ملک اور قوم کی تہذیبی و ثقافتی پہلووؤں کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ قومی ریاستی علامت 1956ء میں بنائی گئی تھی۔ پھولوں کی ڈالی کے درمیان چار خانوں پر مشتمل عکس کے اوپر کی جانب ویسا ہی چاند ستارہ جیسا پاکستان کے پرچم پر ہوتا ہے۔ علامت کے نیچے قائد اعظم کے تین رہنما اصول ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ لکھے گئے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی نشان کو چار خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے اوپر کی جانب دائیں خانے میں چائے کی پتی کا پودا، بائیں خانے میں کپاس جب کہ نچلے دو خانوں میں گندم اور پٹ سن کے نشان موجود ہیں۔ قائد کے فرمان ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ کے ساتھ اس ملک میں یوں کھلواڑ ہوا کہ قوم کے اجتماعی معاملات میں ایمان صرف منہ زبانی رہ گیا۔اتحاد پارہ پارہ اور نظم و ضبط ہماری زندگیوں سے عنقا ہو گیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کے ریاستی نشان کو چار خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے اوپر کی جانب دائیں خانے میں چائے کا پودا، بائیں خانے میں کپاس جبکہ نچلے دو خانوں میں گندم اور پٹ سن کے نشان موجود ہیں۔ موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں چائے کے پودے کی علامت کو ریاستی نشان میں قائم رہنا چاہیے کہ چائے اس ملک کا قومی مشروب بن چکا ہے۔ کہنے کو تو گنے کا رس ہمارا قومی مشروب ہے مگر حکومتی سطح پر آج تک اسے معیاری پیکنگ میں بطور برانڈ رجسٹرڈ نہیں کرایا جا سکا۔ پاکستانی ہر سال اربوں روپے کی چائے پی جاتے ہیں۔ کپاس کے پودے کی علامت ریاستی علامت سے یوں بھی ہٹا دینی چاہیے کہ شوگر مافیا کی خوشنودی کی خاطر کپاس کی کاشت والے علاقوں میں دھڑا دھڑ شوگر ملز قائم کرنے کی اجازت دے کر اور گنا کاشت کر کے کپاس کی فصل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے لہذا کپاس کی بجائے گنے کی علامت زیادہ حسب حال رہے گی۔ ریاستی نشان کے نچلے دو خانوں میں پٹ سن اور گندم کی علامات موجود ہیں۔ جب یہ ریاستی علامت تیار کیا گئی تھیں، اس وقت مشرقی پاکستان ایک صوبے کے طور پر متحدہ پاکستان کا حصہ تھا، مشرقی پاکستان کی سرزمین پٹ سن کی پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنی علیحدہ پہچان رکھتی تھی۔ اب جب مشرقی پاکستان کا بوجھ ہی اتار پھینکا گیا ہے تو ان کی پیداوار کی علامت کو اجاگر کر کے قوم کیوں شونار بنگلہ کی یادگار سینے سے لگائے پھرے؟ ریاستی نشان کے گندم والے خانے میں بھی تبدیلی کر کے بوم یعنی الو کی علامت لگا دی جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ یہ پرندہ مغرب میں عقل مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مملکت خداداد کی کار سرکار میں بھانت بھانت کے عقل مند پالیسی ساز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، یہ انہی عقل مندوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ملک میں گندم کی تین تین پالیسیاں چل رہی ہیں اور گندم اگانے والا کسان مارا مارا پھر رہا ہے۔ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہےمگر جب سے اس کھیل کو نیشنلائز کیا گیا، تب سے اس کا وہی حال ہے جو باقی سرکاری اداروں یا پھر قومی علامات کا ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیں تو یہ آہ نکلتی ہے کہ کیا بلندی تھی، کیسی پستی ہے۔ ہاکی ٹیم کی موجودہ کارکردگی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ٹیم ہے جس نے تین اولمپک میڈل، چار عالمی کپ اور تین چیمپئن ٹرافیاں جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کے ہاکی ماہرین نے ایشیائی ٹیموں کو ہاکی کھیلنا سکھائی مگر اب انہی ٹیموں سے میچ جیتنا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ قومی مذاق بھی ہاکی کو اپنا قومی کھیل بنانے والے اِسی ملک میں دیکھنے کو ملا کہ قومی کھیل کی نگہبانی و سرپرستی کرنے والا ادارہ قومی ہاکی فیڈریشن بیک وقت اپنے دو صدور کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بن کر دنیا بھر میں تماشا بنا رہا۔ بعد از خرابی بسیار رواں سال 11 مئی کو اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے جاپان سے فقید المثال شکست کھائی تو اس پر بھی قومی ذرائع ابلاغ پر ہاکی ٹیم کی اعلیٰ کارکردگی کا شور و غوغا مچ گیا، حتیٰ کہ وزیر اعظم نے اس شکست فاتحانہ پر قوم کو مبارک باد دی اور قومی ٹیم کو اپنا مہمان بنا کر کھلاڑیوں کو انعامات سے نواز ڈالا۔جو المیہ قومی کھیل کا ہے، اسی المیے سے قومی زبان بھی گزر رہی ہے۔1973ء کے آئین پاکستان کی شق 251 کے تحت اردو کو ریاست کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ 8 ستمبر 2015ء کو اْس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ایک انگریزی فیصلے میں حکومت کو اردو زبان کے نفاذ کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سرکاری دفاتر میں اردو زبان کے فروغ کی اشد ضرورت ہے کہ آئین کا تقاضا یہی ہےلیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی سرکاری سطح پر ملک میں اردوکا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے والی صورت حال ہے اور قائد اعظم، آئین پاکستان اور عدالت اعظمیٰ کی واضح منشا کے باوجود اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج نہیں کیا جا سکا۔شلوار قمیص کو پاکستان میں قومی لباس کا درجہ حاصل ہےلیکن جب پاکستانی حکمران بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو لوگ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں، جب وہ قومی علامات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے تو عوام سے کیسے اس امر کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔15 جولائی 1961ء کو چنبیلی کو ملک کا قومی پھول قرار دیتے ہوئے اس وقت کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ اس پھول کو یہ اعزاز اس لیے بخشا گیا ہے کیوں کہ یہ ملک کے دونوں حصوں مشرقی اور مغربی میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے پتے اور پھول دور سے پاکستانی جھنڈا لگتے ہیں اسی لیے اس کو قومی پھول کا درجہ دیا گیا ہے۔ چنبیلی کو قومی پھول سمجھنے کے برعکس قوم بحیثیت مجموعی گلاب کی دیوانی ہے اور گل نرگس اور چنبیلی کے پھولوں میں فرق روا رکھنے سے بھی عاری نظر آتی ہے۔جب چنبیلی کو قومی پھول کا درجہ دیا گیا، اسی کے ساتھ مار خور کو بھی قومی جانور ہونے کاشرف حاصل ہوا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں لگ بھگ چالیس ہزار مار خور ملک میں موجود تھے مگر آج محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات اور محکمہ تحفظ جنگلی حیات جیسے اداروں کی مہربانی کے طفیل ان کا تخمینہ صرف دو ہزار لگایا جاتا ہے۔ دیودار پاکستان کا قومی درخت جو بتدریج ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ محتاط تخمینے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت دیودار کے دس لاکھ درخت تھے مگر آزادی کی ‘برکتوں اور محکمہ جنگلات کے قیام کے بعد اب ان میں سے صرف ایک لاکھ ہی باقی ماندہ سانسیں لے رہے ہیں۔چوکور پاکستان کا قومی پرندہ ہے اور یہ واحد قومی علامت ہے جو پاکستانی قوم کے مجموعی مزاج کی عکاس ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چوکور ایسا پرندہ ہے جو چاند سے بہت پیار کرتا ہے، اسے چاند کو چھونے کی آرزو بے تاب کرتی ہے، یہ اونچی اڑان بھرنا چاہتا ہے مگر جذباتیت کے باعث اکثر ناکام رہتا ہے اور اڑتے اڑتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح آم کو پاکستان کے قومی پھل کا درجہ حاصل ہے، وطن عزیز میں آم کی سب سے زیادہ انواع و اقسام پائی جاتی ہیں۔ پاکستانی آم دنیا بھر میں اپنی لذت اور ذائقے کے باعث مقبول ہیں، اگر حکومت چاہتی تو آموں کی برآمدات سے کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا تھا مگر دیگر قومی استعارات، علامات اور نشانات کی طرح آم کی بے قدری و بے توقیری میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔قومی علامات و استعارات کی جو قدر افزائی اس ملک میں ہو رہی ہے، اس سے بڑھ کر عزت افزائی ان شخصیات کے ساتھ بھی دل و جان سے روا رکھی گئی جنہیںقومی ہیروزکا درجہ حاصل ہے۔ یہ اسی ملک کا طرہ امتیاز ہے کہ اس میں علیل قائداعظمؒ کی ایمبولینس خراب ہو جایا کرتی ہے اور آئین بنانے والے سولی چڑھ جایا کرتے ہیں جب کہ مقبول عوامی قیادتیں کبھی جلاوطن، کبھی سکیورٹی رسک، کبھی نا اہل اور کبھی سرراہ قتل کر دی جاتی ہیں۔ یہاں کی قومی جمہوریت میں فاطمہ جناح اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے صدارتی امیدواروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور ہارہی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ حکیم محمد سعید، حسن ناصر، غلام حیدر وائیں، سلمان تاثیر، مشعل خان اور قطب رند جیسے لوگ تاریک راہوں میں مر جایا کرتے ہیں۔ ساحر لدھیانوی، جوگندر ناتھ منڈل، ڈاکٹر حمیداللہ، قرۃ العین حیدر، استاد بڑے غلام علی خان، جگن ناتھ آزاد اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ ملک چھوڑ جایا کرتے ہیں۔ جی ایم سید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگوں کو تادم مرگ نظربند رکھا جاتا ہے۔اب ذکر ہو جائے پاکستان کے دو اہم قومی ایام کا۔پاکستان کی داغ داغ سیاسی تاریخ کے صابرطالب علموں کے لیے یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تاریخی حقائق کے مطابق 1940ء کو مشہور زمانہ قرارداد لاہور 24 مارچ کو منظور ہوئی جب کہ 1947ء کو پاکستان 15 اگست کو معرض وجود میں آیا۔ جون 1948ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت یوم پاکستان کی تاریخ 14 اگست کر دی گئی۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذالعمل ہوا لہذا یہ دن یوم جمہوریہ قرار دیا گیا۔ یومِ جمہوریہ شاید تین سال ہی منایا جا سکا کہ پھر ملک میںجمہوریت کا بوریا بستر ہی گول کر دیا گیا۔ 1958ء میں انقلاب اکتوبر کی کامیابی کے بعد ایوب خان راج سنگھاسن پر آ براجے تو ان کے زیر انتظام مارشل لاء حکومت کے کسی دفتری بابو نے 14 اگست کو یوم پاکستان کی بجائے یوم آزادی اور 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یوم پاکستان قرار دے دیا۔ مرد مومن، مرد حق صدر جنرل محمد ضیا الحق کے سنہرے اسلامی دور حکومت میں بہت سےباوضودانشوروں نے تاریخی حقائق کی مدد سے 23 مارچ کا تعلق دو قومی نظریہ کے ساتھ جوڑ کر پاکستان اور اہل پاکستان کا قبلہ درست کرنے میں حکومت کی بھرپور مدد کی۔جو قوم اور ملک اپنی قومی علامات، استعاروں اور قومی ہیروز کی قدر نہ کر سکے، اس کی قدر و منزلت میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟ تاریخ کے اس تیزگام سفر میں جس رفتار سے اشیا نظروں سے غائب اور ان کے نام سماعتوں سے دور ہو رہے ہیں، استعاروں اور علامتوں کے نام اگر کتابوں میں بچ بھی گئے تو آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں ان کا حقیقی تصور نہیں بن سکے گاکیوں کہ یہ چیزیں ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی ہوں گی اور شاید مستقبل کے استاد کو اپنی تمام تر ابلاغی صلاحیتوں کے باوجود طلبہ کو اپنے قومی استعارات اور علامات سے آشنا کرنے کے لیے کچھ کلاسیں عجائب گھر میں لینا پڑیں۔