پاکستان میں آئی پی پیز معاہدے عوام کے لئے جان لیوا ثابت ہو کر رہ گئے اور انہی معاہدوں کے نتیجے میں بجلی کے جان لیوا بل عوام کی زندگی کو زندہ درگور کرنے کا سبب بن رہے ہیں بدقسمتی اور افسوس کا مقام ہے کہ ان معاہدوں کا آغاز 1994ء میں ہوا اور قوم یوں دھنستی چلی گئی حکمران طبقات متبادل ذرائع پیدا کرتے وہ اپنی لڑائیوں میں مصروف رہے اور آج تک بھی وہی معاہدے اور وہی لڑائیوں کا تسلسل جاری ہے نہ ڈیم بنے نہ ہی آئی پی پیز معاہدے ختم ہو سکے اور مزے عبد الرزاق داؤد جیسے سرمایہ دار کر رہے ہیں اس وقت Rousch Power Plant Kabirwala 450MWپاکستان کا مہنگا ترین پاور پلانٹ ہے جس کی پیداوار 745 روپے فی یونٹ بتائی جاتی ہے اس کا مالک معروف بزنس مین عبدالرزاق داؤد ہے جو 20 اگست 2018 سے 10 اپریل 2022 تک وفاقی کابینہ کا حصہ رہا، عبدالرزاق داؤد مشہور کمپنی Descon کا مالک ہے اس پاور پلانٹ کا گورنمنٹ کے ساتھ پہلا معاہدہ 1994 میں ہوا اور دوبارہ اس معاہدہ کو 2021 میں اپ گریڈ کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آئے روز بجلی مہنگی ہونے سے بل آمدن سے زیادہ ہوچکے، تو عوام نے ان حالات میں مجموعی طور پر حکومتی طفل تسلیاں کو مسترد کر دیا اور جا بجا میڈیا کا کوئی بھی ذریعہ یا فورم ہو لوگ خاص طور پر “سوشل میڈیا ایپس” پر بجلی سستی کرنے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی ٹیرف میں مسلسل اضافوں سے بجلی کا بنیادی ٹیرف اوسط 35.50 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے جبکہ اس پر سرچارجز نے قیمتوں کو دو گنا کر دیا ہے۔ عام صارف کا کم از کم 10 سے 20 ہزار روپے بل آ رہا ہے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف کے علاوہ 18 فیصد جی ایس ٹی، 3.41 روپے فنانس سرچارج، سہہ ماہی ایڈجسمنٹ کی مد میں 3.32 روپے اور رواں ماہ کی فیول پرائس ایڈجسمنٹ کی مد میں 3.32 روپے بھی ادا کرنے ہوتے ہیں جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جی ایس ٹی اور پی ٹی وی فیس 35روپے بھی وصول کی جاتی ہے۔ عوام نے اس قدر مہنگی بجلی اور سرچارجز کو جیبوں پر ڈاکہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کہاں کا انصاف ہے کہ بجلی کے بل پر دوبار جی ایس ٹی عائد کیا جائے مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین کے چکر نے بھی عوام کو رلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کی تفصیل سے قارئین کو آگے چل کر آگاہی ملے گی کہ کس قدر ڈرامہ بازی کی گئی 200 یونٹ سے ایک یونٹ بڑھتے ہی نان پروٹیکٹڈ صارف بن جانے پر قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہو جائے گی جوکہ مسلسل چھ ماہ ادا کرنی ہوگی۔ پروٹیکٹڈ صارف کا بنیادی ٹیرف 14 روپے 16 پیسے ہے لیکن ایک یونٹ زائد استعمال ہوتے ہی صارف کو 23 روپے 59 پیسے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے۔ غریب کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس بھی بجلی کے زیادہ بلوں سے پریشان ہے کیونکہ 401 سے 500یونٹ کا صارف بجلی کا بنیادی ٹیرف 39روپے 15 پیسے ادا کرے گا اور 400 یونٹ کے صارف کا ممکنہ بل 22ہزار 838روپے اور 500 یونٹ والے صارف کا ممکنہ بل 30ہزار 202روپے ہوگا۔ زرعی صارفین کا بنیادی ٹیرف بھی 44روپے 5پیسے فی یونٹ ہوگیا ہے جس کے باعث کسان پریشان ہے۔ بجلی کی قیمت پر حالیہ اضافے سے صارفین پر تین ہزار 274ارب کا بوجھ ڈالا گیا ہے یہ ظالمانہ و جابرانہ نظام کا ایک تسلسل ہے جو گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے پاکستان میں جاری ہے موجودہ حکومت یا اس سے قبل قائم ہونے والی تمام حکومتوں خواہ وہ نگران سیٹ اپ تھے یا پھر نام نہاد جمہوری حکومتیں تھیں سب نے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کیا اور خاص طور پر آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں کے نتیجے میں پاکستانی قوم پر ایسے بم باری کی گئی کہ اس جبر و وحشت و پراگندگی کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر وار کیا۔ معاشی چیلنجز میں گھرے پاکستان نے جب آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ کرکے معیشت کو سہارا دیا تو پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں اور مختلف ٹیکسز کی مد میں اضافے کی صورت میں اس کی بھاری قیمت عوام کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑ رہی ہے پوری قوم ایک عصاب شکن صورت حال اور غیر یقینی سے دو چار ہے گو کہ احتجاج بھی کئے جا رہے ہیں یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے تو ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف 26 جولائی کو اسلام آباد میں دھرنے کی کال بھی دے رکھی ہے ایک طرف سیاسی انارکی ہے اور دوسری جانب معاشی نظام پر ڈرون حملوں کا تسلسل جاری ہے ایسے گمبھیر حالات پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ دیکھے گئے 1971 کے جنگ کے بعد بھی یہ عالم نہ تھا جو آج دکھائی دے رہا فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی پر شور و غل کرنے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ جو ظلم تم اپنے لوگوں پر ڈھا رہے ہو کیا یہ اسرائیلی دہشت گردی سے کم ہیں آج فلسطین کے نہتے و مظلوم عوام بھی اپنے خدا سے فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں تو پاکستانی قوم بھی خدا کی طرف دیکھ کر ظالموں کے ظلم کے خاتمے کی دوا کر رہی ہے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو جس میں کیلے کی ریڑھی لگانے والا ایک محنت کش پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کیلے بیچنے والا یہ مزدور کیسے 60 ہزار کا بل کیسے ادا کرے گا خدا تمہیں برباد کرے حکمران طبقات کو بددعائیں دے رہا تھا چہرے پر پریشانی کے آثار لیے ناجانے کس شہر میں یہ محنت کش شکوہ بھی اور احتجاج بھی کر رہا تھا اگر غور کریں تو یہ اس کیلے کی ریڑھی والے کا مسئلہ نہ تھا بلکہ یہ حالات پورے پاکستان میں لاکھوں گھروں کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں پاکستان کے طول و عرض میں بجلی کے بلوں کی صورت میں لگنے والے ’برقی جھٹکوں‘ نے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین حرام کر دیا ہے۔ کیلے کی ریڑھی والے نے اپنا بل دکھاتے ہوئے کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کی تعلیم، خوشی غمی، علاج معالجہ اور گھر کا کرایہ علاؤہ ہے روٹی راشن ریڑھی کا پٹرول یہ سب اس قدر دشوار اور پریشان کن مسائل ہیں کہ 60ہزار بجلی کا بل حکمرانوں بتاؤ کیسے ادا کروں؟ اگر ماضی پر غور کریں تو پی ڈی ایم کی 2022 میں اتحادی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اوسطاً 100 گنا تک اضافہ کیا تھا پھر جب نگران آئے تو فی یونٹ قیمت کو آتے ہی مزید بڑھا دیا۔ جس عوام کو موصول ہونے والے بجلی کے بلوں نے کیلے کی ریڑھی والے سمیت محدود آمدنی رکھنے والے پاکستانی عوام کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔ کیل کی ریڑھی والا سوشل میڈیا پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی جسارت کر رہا تھا کہتے ہیں نا طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کے زیادہ بلوں کا مسئلہ صرف گھریلو صارفین تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے ہر طبقہ اور شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض سے احتجاج سامنے آ رہے ہیں لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کا راگ آلاپ رہے ہیں گھر گھر لڑائی جھگڑے بڑھ گئے خاص طور پر گزشتہ روز بجلی کے بلوں پر گوجرانولہ میں دوسگے بھائیوں میں لڑائی کے بعد ایک نے دوسرے بھائی کو تیز دھار آلے سے ‘بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا یہ نہایت لرزہ دینے والا واقعہ ہے جو سماج میں قتال کی آمد کی بشارت دے گیا ہے یہ نہایت فکر انگیز سانحہ ہے لیکن بےحسی اپنے عروج پر ہو تو کون پرواہ کرتا ہے بہرحال پرواہ کرنا پڑے گی اسلئے کہ یہ جو صورتحال ہے یہ سماج اور نظام کی تباہی کا عندیہ دے رہی ہے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا سب کے سب ہاتھ مسلتے رہ جائیں گے 200 یونٹ والے صارفین کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ریلیف دینے کے اعلان کے باوجود نہیں لگتا کہ ریلیف دینا ممکن ہوگا البتہ 200 یونٹ تک والے صارفین کو ریلیف تو پہلے بھی تھا کوئی انوکھا اعلان نہیں کیا وزیراعظم نے ۔۔۔۔۔۔۔اصل مسئلہ 201 یونٹ استعمال کرنے والوں کا ہے کہ ایک یونٹ کے اضافے کے ساتھ 5400 سو روپے اضافی کیوں ؟ یہاں ریلیف بنتا ہے مگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی جبکہ یہ سارا ڈھونگ ہے میٹر ریڈرون نے ریڈنگ ہی ایسے انداز میں کرنی ہے کہ اگر یونٹ 200 سؤ سے کم بھی استعمال شدہ ہوئے تو بھی اس نے 200 سو پلس ہی ریڈ کرنے ہیں تو ہم وزیر اعظم سے پوچھتے ہیں کہ یہ ریلیف اعلان شعبدہ بازی نہیں تو اور کیا ہے وزیر اعظم صاحب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں ایسی پالیسیوں سے ملک چلتے ہیں نہ لوگوں کو ریلیف ملتا ہے بہتر ہوگا کہ فی یونٹ بجلی کی قیمت مقرر کریں اور بےجا ٹیکسز ختم کریں تو ریلیف نظر آئے گا وگرنہ تو جس ڈگر پر حکومت چل رہی ہے پھر عوام نے بھی اپنی ڈگر پر چلنا ہے اور عوام اپنی ڈگر پر چل پڑی تو پھر جو ہوگا وہ سر مقتل ہی نظر آئے گا اب وہ وقت دور نہیں جب سر کٹیں گے تو نظر آئیں گے تلواروں پر لہٰذا بہتر ہوگا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے ختم اور قرضے دینے سے انکار کر دیا جائے متبادل ذرائع تلاش کرکے پاکستان کو پاکستانی عوام بحرانوں سے نکالنا جانتی ہے صرف غلامی کی زنجیروں کو توڑنا مسئلہ ہے اگر یہی روش رہی تو جلد ہی یہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق انتہائی مشکل صورت حال ہے ایک طرف آئی ایم ایف کے معاہدے تو دوسری طرف عوام کی مجبوریاں ہیں۔ دونوں صورتیں نہایت خطر ناک نقظہ پر نظر آتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ لوڈشدنگ کا عذاب او مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے بے روزگاری اور غربت گذشتہ دو سالوں میں اپنے نقظہ عروج پر ہے تو حکومت ان تکالیف کا اندازہ کرتے ہوئے بھی ان حالات میں کچھ کر نہیں سکتیاگر ڈالر بھی مستحکم ہو جائے جو کہ مشکل نظر آتا ہے تو بھی کوئی صورت نکل سکتی ہے یا پھر برآمدات اور ترسیلات زر بڑھا کر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا ماحول پیدا کرکے کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن مہنگی ترین بجلی میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہوگی مقامی سرمایہ کار جب یہاں سے جانے کی سوچ رہا ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کا تصور کسے ممکن ہے موجودہ گنجلک حالات میں فوری طور پر حکومت کے لیے کچھ بھی کرنا بہت ہی مشکل ہے آئی پی پیز معاہدے ختم کرنا ہونگے آئی ایم کو صاف انکار اور ڈیموں کی تعمیر کی انقلابی اصلاحات کے ذریعے ہم معاملات پر قابو پا سکتے ہیں وگرنہ تو جس طرح کی گرد آڑ رہی ہے پورے سسٹم کا ہی بلیک آؤٹ ہونے جا رہا ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں