آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود پوری دنیا میں شہدائے کربلا کا سوگ منایا جاتا ہے، کہیں ماتم ہے، تو کہیں گریہ و زاری، کہیں مجالس ہیں تو کہیں ذکر حسین علیہ السلام اور جانثاران حسینؓ کی محفلیں برپا ہیں۔ ہر ذی ہوش اور اہل دل کی آنکھ شہیدان کربلا کے غم میں پرنم ہے۔ اب تو فرقہ و مسلک سے بالا تر ہوکر لوگ غم حسینؓ میں آنسو بہاتے ہیں۔حتی کہ غیر مسلم بھی اس غم کی کسک کو محسوس کرتے ہیں۔ اور اس شعر کی معنویت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کہ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو،ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ۔ واقعہ کربلا کے محرکات کیا تھے۔ کس طرح پورے خانوادہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وآلہ سلم کو گھیر کر دشت کرب و بلا میں بڑی بے دردی سے تہ و تیغ کیا گیا۔ چھ ماہ کے معصوم علی اصغر سے لیکر خاندان کے کسی نوجوان اور بزرگ کو بھی نہ چھوڑا گیا۔72 جانثاران حسین علیہ السلام میں سے صرف ایک بیمار بچے کو چھوڑ کر سبھی کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ پھر یہ غم و اندوہ میں ڈوبا اور مظلومیت کا پیکر خانوادہ رسول صل للہ علیہ وآلہ وسلم کی نہایت قابل احترام خواتین اور بچے کس قدراذیتوں اور تکلیفوں میں کربلا سے شام کا سفر کرتے ہیں کہ اس داستان غم کو سن کر دل دہل جاتے ہیں، اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے صبر اور حوصلہ کو داد دینا پڑتی ہے۔ اس میں آنے والے تمام زمانوں کے لیے استقامت، جرأت، بہادری اور حریت کی ایک ایسی روشن اور تابندہ تاریخ رقم کی، کہ تاابد انسانیت اس پر نازاں رہے گی۔افسوس شہید ہونے والے تو کائنات کی مقدس ترین ہستیاں تھیں، وہ تو نبیؐ آخری الزماں کے وارث اور چہیتے تھے۔ سیدنا حسینؓ تو اپنے نانا کریم کی گود میں کھیلے تھے۔ آقا کریم ؐ نے تو برملا کہا کہ ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، اور جس نے حسینؓ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی“۔ تو پھر کیا ہوا، کونسا انقلاب آیا کہ اہل کوفہ کے دل راتوں رات بدل گئے۔وہ جنہوں نے بڑی چاہت اور منت سماجت سے خط لکھ لکھ کر سیدنا حسین علیہ السلام کو کوفہ بلوایا، وہ یزیدی طاقت کے آگے سر نگوں ہو گئے، اور انہوں نے امام حسینؓ سے بے وفائی اور بد عہدی کی۔،چند دنیاوی اغراض کی خاطر ابدی ذلت خرید لی۔ صرف آنکھیں ہی نہیں پھیریں، بلکہ خانوادہ رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کے خلاف تلواریں سونت کر میدان کربلا میں انہیں روکا، مزاحمت کی، پانی بند کیا، معصوم اور نہتے حسینی قافلہ پر حملہ آور ہوئے، اور تاریخ کی ایک ہولناک بربریت اور ظلم و ستم کی داستان رقم کر دی۔ جس نے وقتی طور پر تو دین اسلام اور فرزندان اسلام کے قلب و ذہن، اور اسلام کے ابدی پیغام اور مسلمانوں کے درمیان صلح و آتشی کو شدید زک پہنچائی، مگر سیدنا امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کو روکنے والے شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ظلم و بربریت اور سفاکیت کے بعد یہ حسینی قافلہ رکے گا نہیں، اور یہ واقعہ کربلا صرف حسینیت کی مظلومیت کی عکاسی نہیں کرے گا، بلکہ یہ دین اسلام کی اساس اور بنیادوں میں اپنے خون سے اسے حیات جاودانی عطا کر جائے گا اور دین اسلام کا پرچم پوری آب و تاب سے تا ابد لہراتا رہے گا۔یہ کربلا کے معصوم شہیدوں کی قربانی کا صدقہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام اور حسینیت پورے طمطراق اور جاہ و جلال سے زندہ و پائیندہ ہے، جبکہ یزیدیت شرمندہ اور روبہ زوال ہے۔وقتی مصلحتوں اور جاہ و جلال کی خاطر اصولوں کی قربانی بڑی عارضی ہوتی ہے۔ ابدیت اور عزت حق اور سچ کی ہوتی ہے۔ یہی کربلا کا پیغام ہے۔کربلا کے شہیدوں کی لازوال قربانیوں نے حسینیت کو زندہ رکھا ہے، چونکہ حسینیت ایک استعارہ ہے، قربانی کا، ایثار کا، جرأت کا، صبر و رضا کا، حریت فکر اور جانثاری کا، علم و حلم اور بلند کرداری کا، دین کی پاسبانی اور ملت کی ساجھے داری کا، شجاعت اور بہادری کا، حق اور اصولوں کی پاسداری کا، اپنے نانا کے دین سے وفا اور بلند کرداری کا۔سیدنا حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دیکر اسلام کو بچایا بھی اور اسے زندہ بھی رکھا، جبکہ یزید کا نظریہ اور فلسفہ جلد ہی گہنا گیا بلکہ ڈوب گیا۔اور آج یزیدیت ندامت ، ناکامی، ہزیمت و جبر، اور فسق و فجور، تکبر و نخوت اور ظلم و استبداد کا ایک استعارہ اور نشان ہے۔امام حسینؓ شہید ہو کر امر ہو گئے اور یزیدیت وقتی فتح کے باوجود فنا اور غرق ہو گئی۔ یہی پیغام کربلا ہے، یہی حیات جاودانی ہے،یہی سنت شہیدان کربلا ہے، یہی اسلام کی اصل روح اور مسلمانوں کے لیے روشنی اور تابندگی کا مینارہ ہے، جو سیدنا حسین علیہ السلام کے نام لیواؤں کے لیے باعث تقویت اور فخر و انبساط ہے۔اسلام کے دامن میں اس کے سوا کیا ہے۔