انصاف کی آس لیے تاریک جیلوں میں مرنے والوں اور سڑنے والوں کے بارےمیں کون سوچے گا

انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے لیکن ریاست پاکستان میں انصاف میں تاخیر سے انصاف قتل ہو رہا ہے ہماری معزز اور مکرم عدلیہ کے سربراہان بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام انصاف کی روش تبدیل نہی ہوتی یوں تو عدالتیں رات کو بھی لگائ جاتی رہی ہیں دن میں بھی چھٹی کے دنوں میں بھی عدالت عالیہ اور عظمیٰ نظام ریاست و سیاست کی گتھیاں سلجھاتی نظر آتی ہیں اور صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ ریاست کا نظام ہی عدلیہ کے فیصلوں پر چلتا نظر ارہا ہے لیکن عدالتوں میں انصاف کی آس لیے جو سائلین جیلوں میں ہی سڑ کر مر رہے ہیں ان کا حساب کون دے گاتازہ ترین رپورٹ کےمطابق 10 جولائی کی سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل 3 رکنی بنچ 45 ’جیل پٹیشنز‘ کی سماعت کے لیے مقرر تھا، تاہم فہرست میں شامل اپیل کنندگان میں سے کم از کم 10 سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی درخواستوں پر سماعت کرنے سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ایک ماہ قبل، اسی بنچ نے اسی طرح کی 50 درخواستوں پر سماعت کی تھی، جس سے صرف یہ نتیجہ نکلا کہ مجرموں میں سے 12 کی موت ہوچکی ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق جیل پٹیشنز سے پتہ چلتا ہے کہ مجرم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ اپیل دائر کی تھی۔جیل کی ان درخواستوں کی ہمیشہ ہنگامی بنیادوں پر سماعت کی جانی چاہیے کیونکہ دیوانی مقدمات کے برعکس ملزم یا مجرم کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاسکتا، جب کہ وہ زیادہ تر وقت جیل میں گزارچکے ہوتے ہیں یا پھر سزا کی مدت کے دوران ہی ان کی موت ہوجاتی ہے، اور بعد میں اپیل کے مرحلے پر انہیں بے قصور قرار دیا جاتا ہے۔رواں سال مئی تک سپریم کورٹ میں فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد 57 ہزار سے تجاوز کر گئی تھیگزشتہ ایک سال کے دوران زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں 4500 کے قریب مقدمات کا اضافہ ہوا، جیلوں میں موجود افراد کی جانب سے دائر 3353 اپیلیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔دستاویزات کے مطابق 15 اپریل تک زیرالتوا فوجداری مقدمات کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کر گئی، ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف باضابطہ سماعت کے لیے منظوری کی منتظر اپیلوں کی تعداد 31 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال مارچ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 52ہزار 481 تھی جو رواں برس 57 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ارباب طاقت و اقتدار ہمیشہ اپنے مشکل وقت میں عدلیہ کا سہارا تو ضرور لیتے ہیں لیکن انصاف کی فراہمی کے بنیادی نظام کی بہتری کے لیے موثر اقدامات اٹھانے سے ہمیشہ گریزاں رہے ہیں اعلیٰ عدلیہ پو یا زیلی عدالتیں ججوں کو تعیناتیاں کبھی پوری نہی ہوتی انصاف کے حصول کے لیے عام آدمی کو ایک نسل میں شنوائ کا موقع بھی نہی ملتا اور جب ملتا ہے تو مدعی اور ملزم دونوں گزر چکے ہوتے ہیں ریاست کا نظام عدلیہ پر انحصار کرتا ہے اس کو سیاست کی آلودگیوں سے پاک رکھ کر لوگوں تک انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست اور عدلیہ کے زمہ داران بار اور بنچ دونوں کی زمہ داری ہے اسی صورت میں ریاست میں آئین اور قانون کی بالادستی ممکن ہے اس کے بغیر ریاست میں جنگل کا قانون یا طاقت کا قانون چلتا ہے جو ریاست پاکستان میں چل رہا ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں