اور۔! یہ میرے اللہ کا وعدہ ہے۔!!!

”اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں اور نوازوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے۔“(سورۃ ابراہیم)
”اور تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کرونگا اور میرا احسان مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔“(سورۃ البقرہ)
”اور کہا تمہارے رب نے تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔“ (سورۃالفاطر)
”اور اللہ انہیں کبھی غذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ “(سورۃ الانفعال)
بیان کردہ یہ وہ اعمال ہیں جن کی انجام دہی پر اللہ تعالی! نے انسان کو نوازنے کا وعدہ فرمایا۔آیئے بیان کردہ ان چاروں اعمال پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔پہلا عمل جس کا ایک انسان کو حکم دیا گیا وہ ”شکر“ کرنا ہے۔تفسیر صراط الجنان میں شکر کی تعریف کچھ اس طرح آتی ہے: ’’ کسی کے اِحسان و نعمت کی وجہ سے زبان و دل یا جسمانی اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کرنا۔‘‘اسی طرح قران پاک کی بہت سی آیات میں اللہ تعالی! کا شکر کرنے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ ارشاد ربانی ہے کہ:-  کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ اور اللہ قدردان خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا کہ:- ’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو”(سورۃ البقرہ)اسی طرح فرمایا گیا کہ:-”اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔“  قران مجید فرقان حمید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی شکر کی اہمیت کو بار بار بیان کیا گیا ہے جیسے کہ حضرتِ سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعالی! عنہ سے روائت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:- ”جسے یہ چار چیزیں مل گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی۔ اول شکر کرنے والا دل۔دوم ذکر کرنے والی زبان۔سوم آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور چہارم اپنے آپنے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔“ایک اور حدیث مبارک جو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کاش۔! ہمیں علم ہوجائے کہ کون سا عمل بہتر ہے تو ہم اس کو کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:- ” بہترین زبان وہ ہے جو ذکر الہٰی میں مصروف رہتی ہے۔ بہترین دل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعامات پر شکر ادا کرتا رہتا ہے۔بہترین اور ایماندار بیوی وہ ہے جو دینی امور میں اپنے خاوند کی معاونت کرتی ہے۔“اللہ تعالی! نے اپنی ان گنت و بیشمار مخلوقات میں سے اولا“ صرف انسان کو ہی اَشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ دوسرا احسان یہ کیا کہ ہمیں مسلمان بنا کر بھیجا۔تیسرا احسان یہ کیا کہ ہمیں نبی آخر الزماںﷺ کی اُمت میں پیدا فرمایا۔ان احسانات کے ساتھ ساتھ ہمیں ہوا پانی اور دھوپ جیسی نعمت سے نوازا۔ اگر ہم اپنے جسم پر غور کریں تو اللہ تعالی! نے :- ”ہمیں دیکھنے کے لیے دو آنکھیں عطا فرمائیں۔ سننے کے لیے دو کان عطا فرمائے۔ پکڑنے اور چھونے کے لیے دو ہاتھ عطا فرمائے۔ سونگھنے کے لیے ناک عطا فرمائی۔ ًچلنے کے لیے دو پاؤں عطا فرمائے۔کھانے کے لیے منہ عطا فرمایا۔سخت چیزیں چبانے کے لیے دانت عطا فرمائے۔پھر کھانے اور پینے کیلئے ہمیں مختلف قسم کے پھل اور میوے عطا فرمائے“اسی لئے قران کہتا ہے۔ ”اور تم میرے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلائے گے“(سورۃالرحمن)الغرض جوں جوں ہم ربّ تَعَالٰی کی نعمتوں کا شمار کرتے جائیں گے تو اتنا ہی بارگاہ الٰہی میں شکر بجا لانے کے قائل ہوتے جائیں گے۔ یہ تھا پہلا پہلو جو شکر سے متعلق تھا اب دوسرا پہلو جو ”ذکر“ سے متعلق ہے۔  قرآنِ کریم میں ذِکر سے مراد اللہ تبارک و تعالی! کو یاد کرنا۔ اس کا چرچا کرنا اور ہر دم اور ہر وقت اس کا نام لینا ذِکراللہ کہلاتا ہے۔اللہ تعالی! فرماتے ہیں کہ اے انسان تو میرا ذکر کر میں تیرا ذکر کرونگا ۔ ذکر ایک عبادت ہے۔قرآن مجید میں آتا ہے:-” اے ایمان والو ! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کیا کرو۔“ اسی طرح ایک حدیث میں ہے۔ حضرت ابی ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ ؟نے فرمایا کہ:-”حق تعالی کا فرمان ہے کہ میں بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع میں تذکرہ کرتا ہوں اور اگر بندہ میری طرف ایک بالشت متوجہ ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھاتا ہے تو میں دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔“اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ کا ذکر ہے“۔ بزرگوں نے خداوند تعالی! کے ذکر کیلئے بہت سے طریقے بیان کئے ہیں جیسے کہ تسبیح و تہلیل اللہ کے ذکر کا ایک طریقہ ہے۔ ساری کائنات اللہ کا ذکر و تسبیح کرتی ہے۔ پہاڑ اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ چلتا ہوا پانی اور ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، زمین کے اندر جو مخلوق رہتی ہے وہ اور اسکے اوپر جو مخلوق ہے اپنے اپنے طریقے اور اپنے اپنے انداز سے اللہ کا ذکر کرتی ہے۔ الغرض جتنی بھی مخلوقات اس کائنات میں اللہ نے پیدا فرمائی ہے وہ ساری کی ساری اللہ کا ذکر کرتی ہے۔ بطور انسان ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم بھی اللہ رب العزت کا ذکر کریں اور اس طرح ذکر کریں جس طرح اسکا ذکر کرنے کا حق ہے۔ اب تیسرا عمل ”تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو قبول کرونگا۔“ دعا کے لغوی معنی پکارنا فریاد کرنا اور التجاء کرنا کے ہیں۔ دعا ایک عبادت ہے بلکہ ساری عبادتوں کی روح ہے اور اللہ تعالی! کے قرب کا ذریعہ ہے۔یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے؟ کہ وہ ہم گنہگاروں کے گناہوں سے لتھڑے ہونے کے باوجود ہماری دعائوں کو قبول کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ :- ” تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو سنوں گا۔تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔تم مجھ سے فریاد کرو میں تمہاری فریاد کو سنوں گا اور تم مجھ سے مدد مانگو میں تمہاری مدد کرونگا۔ اس ذات باری تعالی! نے مانگنے کیلئے کوئی وقت بھی مقرر نہیں کیا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی پابندی لگائی ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ جب چاہو مانگو میں تمہیں دونگا۔اس سے بڑا احسان ایک گنہگار انسان پر اور کیا ہو سکتا ہے۔؟“ اب چوتھا پہلو جسکا اللہ تعالی! نے وعدہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ :- ”تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دونگا اور تمہیں عذاب نہیں دونگا۔“قراں پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:- ”تم فرماؤ اے میرے وہ بندو۔! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔“ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ:- ”کیا یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں رجوع نہیں کرتے اور اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے حالانکہ اللہ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔“(سورة المائدہ) گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے،وہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا چاہتا ہے اور نیک کاموں پر زیادہ سے زیادہ ثواب دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:- ’’جو کوئی ایک نیکی لاتا ہے،اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو کوئی ایک برائی لاتا ہے تو اسے بس اس کی جزا ملے گی اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘(سورۃ الانعام) حدیث پاک میں ہے کہ:- ایک دفعہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک عورت کو اپنے بچے کے ساتھ والہانہ محبت کرتے دیکھا تو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: –
”کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟“ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایاکہ: ”اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا امیدوار ہونے کے لیے لازم ہے کہ بندہ اپنے آپ کو نیک اعمال اور توبہ و استغفار کے ذریعے اس کا اہل بنانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مانے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرے۔ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے کام نہ کرے۔ استغفار کو اپنا شعار بنائے۔بس اس کی رحمت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔