جس کی وجہ سے انسانوں اور مال مویشیوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں، نشیبی علاقوں میں پانی گھروں کے اندر داخل ہوگیا ہے ، ژالہ باری سے فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔حالیہ بارشوں کے دنوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی قبرستانوں میں کافی پانی جمع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بعض قبروں کو جزوی طور پر، جبکہ بعض کو مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں یہ مقامات اگرچہ عبرت کے لیے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان مقامات کا احترام شرعاً لازمی ہے۔جہاں تک تعلق ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کا تو ہمیں ضرور کرنے چاہییں، قبل از وقت ایسے انتظامات کرنے چاہییں جن کی وجہ سے ہم ممکنہ تباہیوں اور نقصانات سے بچ سکیں۔ بارشوں کے جمع شدہ پانی کی نکاسی کے لیے سنجیدہ کوششیں اور منظم کام کیا جائے، اس کے لیے سیوریج سسٹم میں بہتری لائے جائے، تاکہ سڑکوں اور گلیوں کا پانی جمع ہو کر تعفن اور وبائی امراض نہ پھیلاتا رہے، بلکہ زیر زمین نالوں میں بہہ جائے۔ جو بے گھر ہوئے ہیں، ان کی رہائش اور خوراک وغیرہ کا معقول بندوبست کیا جائے، وقتی طور پر خیمے اور شامیانے دیے جائیں اور بعد میں انہیں گھر تعمیر کرکے دیے جائیں۔جن کی فصلوں کا نقصان ہوا ہے حکومت ان کا ہر ممکن نقصان پورا کرے، کسان کی سال بھر کی روزی انہی کھیتوں اور باغات سے وابستہ ہوتی ہے۔ بارشوں کے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سدباب کے لیے علاج معالجہ کی سہولیات کو یقینی بنایا جائے اور اس پر آنے والے اخراجات کو رفاہی تنظیموں سے زیادہ حکومت پورا کرے۔قبرستانوں اور دیگر مقدس مقامات جن کو نقصان پہنچاہے ،ان کی تعمیر کا بندوبست کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کائنات کے خالق ہیں اور اس کے نظام کو چلانے کے لیے مضبوط قوانین و اٹل ضابطے مقرر فرمائے ہیں۔ کائنات کا نظام اس وقت تک صحیح چل سکتا ہے ،جب اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق چلایا جائے۔ اگر اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی جائے اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کی جائے تو پھر نظام درست نہیں چلتا، بلکہ افراتفری، تباہی و بربادی اور مصائب و عذاب نازل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں افراد، قومیں، قبیلے اور علاقے نیست و نابود ہوجاتے ہیں اور تباہی کے لیے یہی چیزیں (گناہ) باطنی اسباب کہلاتے ہیں۔قرآن کریم میں نافرمانوں پر عذاب کا تذکرہ بکثرت موجود ہے: ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی، تباہ ہوا۔ قابیل نے اللہ کی نافرمانی کی، تباہ ہوا۔ قوم نوحؑ نے اللہ کی نافرمانی کی طوفان کے عذاب میں مبتلا ہوئی اور تباہ ہوئی۔ قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی کی تیز ہوا کے عذاب میں مبتلا ہوکر تباہ ہوئی۔ قوم ثمود نے اللہ کی نافرمانی کی چیخ کے عذاب میں مبتلا ہوئی اور تباہ ہوئی۔قوم لوط نے اللہ کی نافرمانی کی پانی میں غرق اور پتھروں کے عذاب میں مبتلا ہوئی اور تباہ ہوئی۔ نمرود نے اللہ کی نافرمانی کی، مچھر کے عذاب میں مبتلا ہوا، اور تباہ ہوا۔ فرعون نے اللہ کی نافرمانی کی، بحر قلزم میں غرق ہوا اور تباہ ہوا۔قارون نے اللہ کی نافرمانی کی، زمین میں دھنسنے کے عذاب میں مبتلا ہوا اور تباہ ہوا۔ بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانی کی، ظالم بادشاہ کے مظالم کا شکار ہوئی اور تباہ ہوئی۔ قرآن کریم میں ہے کہ بر و بحر میں ہونے والا فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا ہی کیا دھرا ہے اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جو مصیبت و پریشانی تمہیں آتی ہے یہ تمہارے ہی گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہے ،جبکہ اکثر جرائم سے اللہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔ ہر آنے والی مصیبت ہمیشہ عذاب ہی نہیں ہوتی، بعض مرتبہ آزمائش کے طور پر بھی آتی ہیں، ایسے وقت میں توبہ و استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔قرآن کریم میں ہے: کیا وہ لوگ اس بات میں غور نہیں کرتے کہ ہر سال ایک یا دوبار مصائب کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کیے جاتے ہیں، اس کے باوجود بھی وہ اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے سبق سیکھتے ہیں۔(سورۃ التوبہ) بارش کی وجہ سے زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ کھیتیاں ،باغات، نہریں اور موسم معتدل ہوتا ہے اگر بالکل بارش نہ ہو تو پانی کی تہہ نیچے چلی جائے اور اگر بارشیں مسلسل برسنا شروع کر دیں تو طوفان اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ بارش طلب کرنے کے لیے نماز استسقاء ادا فرماتے۔ جس کا مکمل طریقہ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ طوفانی بارشیں برس رہی ہیں، اس موقع پر حکومت وقت اور عوام اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے رحمت والی بارشیں نازل فرمائے اور زحمت والی بارشوں سے ہماری حفاظت فرمائے آمین
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں