بجلی صارفین کو گیارہ ہزار وولٹ کے جھٹکے

بھوک ،بے روزگاری اور مہنگائی نے تو ویسے ہی پاکستان کے باسیوں کو مار مکایا تھا اب بجلی کی آفت ایسی گلے پڑی ہے کہ سارے دکھ درد بھول گئے ہیں اور ہر شہری کا ایک ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ لمبے چوڑے بجلی کے بلوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔نجات تو دور کی بات ہے ہر بار بجلی کابل ناقابل برداشت اور وحشت ناک صورت اختیار کر کے آوارد ہوتا ہے کسی صورت بھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ آج کل سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور ہر دوسری پوسٹ بل بجلی کے ڈھائے جانے والے ستم کی زیادتی پر مبنی ہے۔ قوم اس کی وجہ سے ہیجان کا شکار ہو چکی ہے۔ایک واپڈا ہے کہ مخلوق خدا پر ترس کھانے کی بجائے اس کے ظلم و ستم طویلے کی بلی کی طرح لمبے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے دو تین ماہ بعد بجلی کے نرخ بڑھتے تھے، اب پیٹرولیم مصنوعات کی دیکھا دیکھی اس سے بھی آگے بڑھ کر مہینے میں دو نہیں تین تین مرتبہ بجلی کے نرخ پرواز کر جاتے ہیں اور عوام سوائے اشک بہانے، واپڈا کو کوسنے اور اپنے آپ کو جلانے پر مجبور ہیں۔سوئی گیس اور بجلی کے نرخوں میں ریس پر ریس لگی ہوئی ہے، گیس آتی نہیں ہے اور بل دندناتے ہوئے آوارد ہوتے ہیں۔کہنے کو ہمارے پاس آئی پی پیز کی وجہ سے بہت وافر ہے ان کی کیپیسٹی پروڈکشن ہماری ضرورت سے بھی کہیں دگنی ہے جس کی قیمت بغیر بنائے ،بغیر استعمال ہر فرد بطور سزا جرمانہ ادا کرنے پر مجبور ہے کہ ہماری اشرافیہ نے ایک ایسا ہاتھی ہمارے سر پر لادا ہوا ہے جس سے عشروں نجات حاصل کرنا عبث ہے اور اس کے ستم ہائے دراز ہماری جانیں لے کر چھوڑے گا۔ اس کے باوجود کے پی کے میں 18 گھنٹے، بلوچستان اور سندھ میں 12 گھنٹے اور پنجاب میں چھ سے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب سوا ہے جو 50/55 درجے سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں عوام کی جان لے رہا ہے۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ وافر مقدار میں بجلی پیدا ہونے کے باوجود پانچ ہزار میگا واٹ کی کمی کس طرح واقع ہو جاتی ہے۔اس وقت ہمارا موضوع واپڈا ہے کہ جس کے 48 ہزار آفیسرز اور ایک لاکھ پانچ ہزار دیگر ملازمین سالانہ مفت کی 39 کروڑ 10 لاکھ یونٹ بجلی استعمال کر کے عوام کو ٹیکہ لگاتے ہیں۔اس کی قیمت پانچ ارب 25 کروڑ بنتی ہے جو عوام کی جیب پر بجلی کے مہنگے بلوں کی صورت میں بوجھ بنتی ہے۔ لائن لاسز اور بجلی چوری اس کے علاوہ ہے جو اس میں بھی دگنی قیمت کا احاطہ کرتی ہے اور اس کا نزلہ عوام پر گرتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں کئی قسم کی بدعنوانیاں ہو رہی ہیں سب سے بڑا ڈاکہ سلیب کا ہے جس کی سوشل میڈیا جس کی مار ہر پاکستانی کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھگتنا پڑتی ہے اس کی چھوٹی سی مثال آج کل سوشل میڈیا کا سب سے بڑا ٹرینڈ بن چکا ہے کہ ایک فرد کا 200 یونٹ کا بل 3083 روپے بنتا ہے اگر وہ صرف ایک یونٹ اضافی خرچ کر کے اس ٹیرف کو کراس کرے تو اسے اضافی ایک یونٹ کے اضافے سے 8154 روپے بل ادا کرنا ہوگا گویا ایک یونٹ کی قیمت اسے 5011 روپے پڑے گی۔ساچنے کی بات ہے کہ دنیا کے کس خطے میں عوام پر اس قسم کا ڈاکہ ڈالا جاتا ہے؟ حیرت تو یہ ہے کہ 1972 کا آئین ہر پاکستانی کے حقوق کی پاسبانی کرتا ہے اس عظیم ڈکیتی پر کبھی کسی عدالت نے سوموٹو ایکشن نہیں لیا یوں اندھیر نگری چوپٹ راج کے اس نظام میں تو عوام پس رہی ہے جس کی کہیں کوئی داد فریاد نہیںاس صارف کو یہ مار صرف ایک مہینے کے بل میں نہیں پڑ رہی بلکہ عمر قید کے قیدی کی طرح اگلے چھ ماہ خواہ وہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرے چاہے وہ چند یونٹ ہی استعمال کیوں نہ کرے اسے اس کے اگلے ٹیرف کی سزا ہر صورت بھگتنا ہوگی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غلطی ایک مہینے میں ہوئی اور اسے جرمانہ پورے چھ ماہ زائد بل ادا کرنا ہوگا۔اس کی کیلکولیشن کی جائے تو اس صارف کو چھ ماہ میں 30 ہزار روپے زائد ادا کرنا ہوں گے۔ یہ اس بجلی کا جرمانہ ہوگا جو اس نے کبھی استعمال ہی نہیں کی ہوگی،ستم کی انتہا یہ ہے کہ اس کی شکایت کس سے کی جائےایسا ظالمانہ نظام دنیا کے کس خطے میں رائج ہے، پھر واپڈا ریڈر کو ہدایات ہوتی ہیں کہ مئی اور جون کے مہینوں میں زیادہ ریونیو اکٹھا کرنا ہے اس کے لیے 30 دن کے بجائے 35 دن یا اس بھی زائد دنوں کی ریڈنگ لے کر زبردستی صارف کو اگلے ٹیرف میں پھنسا کر لمبا چوڑا سرقہ کیا جاتا ہے۔ اب تو یہ بھی نوٹس میں آ رہا ہے کہ ایک شخص نے ان دو مہینوں کے دوران 195 یونٹ خرچ کیے ہیں، اول تو ان مہینوں کے میٹروں کے فوٹو بھی نہیں لیے جاتے، اگر فوٹو لے بھی لیے جائیں تو 195 یونٹ کی بجائے 209 یا 210 یونٹ دکھا کر بل ڈبل سے بھی زیادہ کر دیا جاتا ہے۔ ریڈنگ کے ہفتہ بعد کہیں بل وصول ہوتے ہیں خصوصا ان مہینوں میں مارجن کم رکھ کر صرف دو دن ادائیگی کے لیے دیے جاتے ہیں اس دوران ریڈنگ کہیں اوپر جا چکی ہوتی ہے۔ صارف کے پاس بل درستی کا کوئی ثبوت ہوتا ہے نہ وقت دیا جاتا ہے یوں واپڈا اپنی روایتی بدمعاشی سے صارف کے ساتھ ہاتھ کرتا چلا جاتا ہے اسی ضمن میں پروٹیکٹڈ اور نان پروڈکٹڈ کی اصطلاح وضع کر کے واپڈا نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے دونوں کیٹگری کے صارفین کے لیے الگ الگ یونٹ وائز ریٹ مقرر کر رکھے ہیں جس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں بنتا ایک ہی قسم کی جنس یا پروڈکشن کے دو الگ الگ ریٹ نا انصافی ہے جس کا کسی قانونی ادارے نے نوٹس نہیں لیا حالانکہ یہ صارف کے بنیادی حقوق پر بہت بڑا ڈاکہ ہے۔ دونوں کو دی گئی سہولت یکساں ہے کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے تو دو الگ الگ ریٹ چہ معنی؟ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ایک یونٹ زائد خرچ کرنے پر بل دگنا بھی نہیں اڑھائی سے تین گنا بڑھ جاتا ہے جو صارف کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ بجلی جو صارف کے استعمال میں آتی ہے وہ صرف اسی کا بل صارف سے وصول کیا جائے اس پر درجن بھر ٹیکسز جن کا بجلی کے خرچے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا اصل بجلی کی لاگت سے بھی زیادہ صارف کے بل کی زینت بنتے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں بنتا ایسا کس قانون کے تحت کیا جاتا ہے؟ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔اب تو نئے مالی سال سے ایک نئی افتاد صارفین پر کیٹگری وائز ڈال کر ان کا پتہ پانی کر دیا گیا ہے اس کی ابتدا تو سوئی گیس کے بلوں سےہوئی کہ 400 روپے فکس چارجز لگا دیے گئے تھے اور گیس کے زیادہ خرچے پر اسے ہزار روپے ماہانہ تک کر دیا گیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر الگ سے ایکسائز ڈیوٹی چارجز بھی دینا پڑتے ہیں۔حکومت جانتی ہے کہ عوام پر جتنا بھی بوجھ ڈالا جائے وہ شور نہیں کریں گے۔ اگرچہ بات بہت آگے جا چکی ہے اور صارفین بیدار ہو چکے ہیں، لاوا پھٹنے کو ہے اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہونا۔ اب واپڈا نے بھی بجلی صارفین پر دیگر ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ فکس چارجز جو بے نامی ہیں عائد کر دیے ہیں جسکی تفصیل اس طرح سے 201 سے 300 یونٹ کے صارفین پر 300 روپے ماہانہ 401 سے 500 یونٹ کے صارفین 400 روپے 501 سے 600 یونٹ کے صارفین 600 روپے 601 سے 700 تک والے صارفین آٹھ سو روپے اور 700 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین ایک ہزار روپے ماہانہ فکس چارجز ادا کریں گے، ساتھ ہی سو یونٹ کے صارفین کا ٹیرف 7.74 روپے سے بڑھا کر 23.93 روپے101 سے 200 یونٹ کے صارف کا ٹیرف 10.06 روپے سے بڑھا کر 30.07 روپے اور 201 تا 300 یونٹ کا ٹیرف 27.14 سے بڑھا کر 39.26 روپے کر دیا گیا ہے، کوئی واپڈا والوں سے پوچھے کہ یہ کس بات کا جرمانہ ہے؟ اندھیر نگری میں سب جائز ہے۔ آئی پی پیز نے عوام کو جو چرکے لگائے ہیں مستقبل میں برابر یہ چرکے لگتے رہیں گے ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکیں گی۔ان کے کیپیسٹی چارجز عوام پر غضب ڈھا رہے ہیں۔ حکومت ان کے اربوں روپے کی نادہندہ ہے اور اس کا نزلہ بجلی صارفین پر پڑتا ہے۔ ملک میں سولر انرجی کے فروغ کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ یہ کمپنیاں اپنی کپیسٹی پروڈکشن کے مطابق واجبات کی حقدار ہیں۔حکومت کا ریونیو مسلسل کم ہو رہا ہے جس کا اثر بجلی صارفین پر پڑا ہے اور ہر ماہ تین تین مرتبہ بجلی کے نرخ بڑھا کر عوام کو ٹیکا لگایا جا رہا ہے جس پر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی ناقص پالیسیاں سمجھ سے باہر ہیں کہ اپنے بجلی کے سورسز بڑھانے کی بجائے موجودہ سورسز کو دیگر ممالک کو بیچا جا رہا ہےملک کے قیمتی اثاثے یا تو گروی رکھے جا رہے ہیں یا انہیں بیچا جا رہا ہے، شنید ہے کہ غازی بروتھا ڈیم جو اس وقت 1450 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور فی یونٹ لاگت 1.25 روپے بنتی ہے جو صارف کو 50 گنا مہنگا کر کے بیچا جاتا ہےاب یہ قیمتی اثاثے کویت کو اونے پونے صرف 80 , 90 کروڑ ڈالر میں بیچا جا رہا ہے اور اس کی پروڈکشن 1.25 روپے کی بجائے 10 روپے فی یونٹ کی جا رہی ہے جس کا مفاد کویت کی حکومت کو ہوگا۔ اس ڈیم کی قیمت 16 ارب روپے سے زیادہ کی ہے جو اتنے سستے داموں آؤٹ فورس کیا جا رہا ہے۔چند سالوں ہی میں حکومت کویت اپنی قیمت نکال کا مفت کا مالک بن جائے گی اور پاکستان اپنے ایک بجلی کی قیمتی اثاثے سے محروم ہو جائے گا۔یہ کون سے حب الوطنی ہے؟ کیا اس پر کوئی عدالت عظمیکا کوئی نوٹس بنتا ہے؟ پاکستان کی سرزمین قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے جس کی ہم بہت بے قدری کر رہے ہیں ،قائد اعظم کے بعد آج تک کوئی ایسا مخلص رہنما اسے نہیں ملا جو اس کی تقدیر بدل کر عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔معدنی خزانوں سے مالا مال اس ملک کی قیمتی اثاثے بشمول ریکوڈک کے سونے، تانبے کے ذخائر دوسرے ملکوں کو مفت دیے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2010ء کے زلزلے کے نتیجے میں گلگت کے پہاڑوں کی وسیع پیمانے پر شکست و ریخت ہوئی اور عطا جھیل وجود میں آئی جو پانی کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے یہاں ایک ڈیم بنا کر وسیع پیمانے پر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو ہمارے ملک کی ضرورت سے بھی 500 گنا زائد ہوگی اور ہم اسے برآمد بھی کر کے وسیع زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔یہ کام دو سال سے کم عرصے میں ہو سکتا ہے،حکومت کے اپنے ذرائع نہ سہی ہم دوسرے ممالک سے قرض لے کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر عوام کو بجلی کے مہنگے عذاب سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں مگر ہماری قیادت صرف اور صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔قدرت کی اس عظیم نعمت سے فائدہ نہ اٹھانا کتنی بڑی ناشکری ہے۔ اس طرح کالا باغ ڈیم پون صدی سے سیاست کے بھینٹ چڑھا ہوا ہے، اگر یہ بنا لیا جائے تو ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہمارا بہت بڑا المیہ مخلص لیڈرز کا نہ ہونا اور سیاسی عدم استحکام ہےجس کی بدولت ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور عوام کی زندگی اجیرن سے اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہے۔کاش قدرت ہمیں کوئی ایسا مرد مجاہد دے جو ان مسائل کو حل کر سکے۔ عوام کے لیے بجلی کے بل عذاب و قہر کا مسلسل عذاب ہے جس سے چھٹکارا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کام اب نہ کیا گیا تو عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور خدانخواستہ وہ سڑکوں پر آجائے گی اور بدحال معیشت کے ملک کے لیے مشکلات پہلے سے بڑھ جائیں گی اور عدم استحکام ملک کو اور اندھیروں میں دھکیل دے گا۔