حقوق کا پاسبان تحفظ مرکز

تحفظ دراصل ایک ایسا احساس ہے جس کی بنیاد پر معاشرہ میں بسنے والا ہر فرد خود کو محفوظ سمجھتا ہے ۔اس کی یوں تو کئی اقسام ہیں مثلاً شخصی ، جانی و مالی ، ماحولیاتی ، آبی و ہوائی ، علمی ، جائیداد و مال و زر ،گفتار وکردار وغیرہ کا تحفظ ۔غرض کہ اس میں انسان ،جانور، چرند پرند وغیرہ شامل ہیں۔معاشرہ میں روزبروز تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کیلئے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ۔معاشرہ افراد سے ملکر وجود میں آتا ہے ۔کسی بھی معاشرہ میں بسنے والے افراد اُس کا قیمتی اثاثہ ہیں۔صحت، تعلیم ،امن اور یکساں تحفظ نہ صرف ماحول کو خوشگوار بناتا ہے بلکہ اس کی کامیابی کا سہرا بھی انہی کی مرہون منت ہے ۔صحت کا تعلق چونکہ جسمانی اعضاء کے ساتھ منسلک ہے چنانچہ یہ صرف اُسی صورت میں ہی ممکن ہے جب دل و دماغ اچھی و کارآمد سوچ کے ساتھ درست سمت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ننھے اطفال کی تعلیم و تربیت ،صحت و خوراک کا معقول انتظام اور اخلاقی تحفظ کیلئے اقدامات سرانجام دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ماحول کی خرابی کا سب سے بڑا سبب ہی دراصل کسی فرد کے حقوق ناجائز طور پر غضب کرنا ہیں۔دادرسی و شنوائی سے محرومی انتشار کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔بزرگ شہری،عورت ہو یا مرد ،بچہ ہو یا بڑا ، خواجہ سرا وغیرہ بحیثیت پاکستانی شہری اور 1973ء؁ کے آئین کے عین مطابق سب کے حقوق مساوی ہیں۔مذہب اسلام کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر ہرگز فوقیت نہیں دیتا ماسوائے تقویٰ و پرہیز گاری کے ۔اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس میں مسلم و غیر مسلم سب کو یکساں تحفظ حاصل ہے ۔اسلام سے پہلے یہی دستور تھا کہ بچی کی پیدائش کے بعد اُسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔چاروں اطراف جہالت و تاریکی کے سائے منڈلاتے تھے ۔جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون تھا ۔طاقتور کمزور کو اپنا غلام بنا کر رکھتا تھا اور طاقت کے نشہ میں دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ایک عام سی روایت بن چکی تھی ۔ مدنی کریم ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی یکسر جہالت کا خاتمہ ممکن ہوا اور ماں ، بہن ، بیٹی کے تحفظ کو فوقیت حاصل ہوئی ۔اسلام سے پہلے ماں ، بہن ، بیٹی کو جائیداد میں شرعی حق سے محروم رکھا جاتا تھا ۔نکاح کے بعد عورت کا شرعی حق المہر ادا کرنا توہین کے زمرے میں آتا تھا ۔حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات مبارکہ کی روشنی میں قرآن کریم کی آیات کے عین مطابق خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے احسن اقدامات کو اوّلین ترجیح دیکر حق اور حقوق کے تحفظ کا نفاذ ممکن بنایا۔قرآن کریم نے یہ واضح کر دیا کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس ہیں۔یہ کہ انسانیت کی تکمیل کا سہرا ان دونوں کے سر ہے ۔ان دونوں کے بغیر یہ عمل ممکن نہیں ۔سورۃ النساء کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ “مردوں کو اپنے کئے کا حصّہ ہے اور عورتوں کو اپنے کئے کاحصّہ ہے اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کو یقینی بنایا ۔اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ چاہے عورت ہو یا مرد کسی کی عظمت و عفت پامال ہو ۔ قارئین کرام! چونکہ معاشرہ مسلسل بے راہ روی ، غیر متزلزل اور غیریقینی صورتحال سے دوچار ہو تا چلا جا رہا ہے ۔جس کی وجہ سے حقدار کو اُس کے حق سے بذریعہ جبر محروم کر دیا جاتا ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر تاریک رات کے بعد طلوع سحر قدرت کا قانون ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ظالم اپنے کئے گئے ظلم سے بچ جائے اور نیکی کا صلہ قدرت عطا نہ کرے ۔یہ بھی درست ہے کہ جوانی کا تحفظ دراصل بڑھاپے کے سکھ چین کی ضمانت ہے اور یہ صرف اُسی صورت ہی ممکن ہے جب صداقت و ایمانداری کے ساتھ اردگرد بسنے والے افراد کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور کسی کے ساتھ جبراً ظلم و ذیادتی نہ کی جائے ۔ حکومت نے مظلوم افراد کے تحفظ اور دادرسی کیلئے مملکت خداداد کے تمام اضلاع میں دادرسی سینٹرز قائم کئے ہیں ۔ان ادارہ جات میں تعینات خواتین پولیس افسر مظلوم و بے سہارا خواتین کے تحفظ کی ضامن ہیں اور ان پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کیلئے شبانہ روز خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ان ادارہ جات میں سرکاری وکیل بھی موجود ہیں جو بلا معاوضہ ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ان اداروں میں گنہگار خواتین کی اخلاقی تربیت کو فوقت دی جاتی ہے ۔اس امر کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ ایسے خواجہ سرا جو تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں اور معاشرہ میں مثبت تبدیلی کے عمل پر گامزن ہوں اُن کیلئے تعلیم کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے بذریعہ تعلیم و اخلاقی تربیت کے بل بوتے پر آج خواجہ سرا اہم سرکاری سیٹوں پر تعینات ہو کر ملک وقوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان مراکز میں آنے والی بچیوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ تعلیم، خوراک، صحت کے حوالے سے بھر پور احسن اقدامات کو یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرہ سے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ ممکن ہو اور امن و امان کی فضاء سرسبز و شاداب ہو سکے ۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں