دنیا کا ہر انسان جانتا ہے کہ تعلیم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔ انسان کو سچائی کی پہچان، حقائق کا ادراک اور معاشرے میں مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو علم ہی کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مؤثر تعلیم کے بغیر کسی بھی قوم کی ترقی ناممکن ہے۔ فکری اور شعوری بیداری کے لیے ضروری ہےکہ قوم کا ہر فرد زیور تعلیم سے آراستہ ہو۔ یہ حقیقت ہے اقوام یورپ نے تعلیم و تربیت کو اپنے عوام میں عام کیا اور دنیا پر حکمرانی ان کا مقدر بنا۔ اگر تعلیم عام ہوگی تو قوم کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت اعلیٰ پائے کی ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے بھی تعلیم کو پہلی ترجیح دی انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور جنہوں نے محلات بنانے پر توجہ مرکوز رکھی اور تعلیم کو ترجیح نہیں دی وہ ایک ہجوم بن گئیں لیکن ایک ایسا ہجوم جس میں شعوری بیداری تک نہ ہو۔ وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو یہاں بدقسمتی سے تعلیم پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنا حق تھا، یہی وجہ ہے کہ ہم جنوبی ایشیا میں بھارت سمیت سری لنکا جیسے ممالک سے بھی تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر آپ 1947 سے لے کر اب تک تعلیمی حوالے سے مختلف حکومتوں کی کاوشوں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑا مسئلہ نظام تعلیم کا جدید تقاضوں کے مطابق نہ ہونا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم گزشتہ سات دہائیوں سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔اگر 2024 کی بات کی جائے تو ملک بھر خاص طور پر صوبہ پنجاب میں تعلیمی لحاظ سے بہت ساری سہولتیں میسر آچکی ہیں جیسے دور دراز کے دیہات میں کمپیوٹرز لیبارٹریز، تیز تر انٹرنیٹ، ہر سکول میں جدید ٹیبلٹس، بجلی، واش رومز، فرنیچر سمیت باقی تمام سہولتوں سے آراستہ سکولز اور دیگر ٹیکنالوجی وغیرہ، ان جدید ٹولز کی وجہ سے فاصلے سمٹنے کے ساتھ معلومات کا ذخیرہ حاصل کرنا بہت سہل ہوگیا ہےمگر اتنی سہولیات ملنے کے باوجود بھی ہم تا حال سائنسی ایجادات اور مؤثر معیار تعلیم میں دیگر اقوام بالخصوص اپنے ہمسائے بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی اقوام تعلیمی میدان میں ہم سے کافی آگے نکل چکی ہیں اور آج دور جدید میں ہمارا نوجوان ڈگریاں تو اکٹھی کر رہا ہے لیکن جب عملی میدان میں جاتا ہے تو ناکام ہو جاتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تعلیم کسی بھی ملک و قوم کے استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن 1947 سے لے کر آج تک ہم نے اس میدان میں عملی اور خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جس کا خمیازہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کس طرح سوشل میڈیا پر دشمن پروپیگنڈا وار کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو ورغلا رہا ہے اور بد قسمتی سے نوجوانوں کی اکثریت کو دوست اور دشمن کی تمیز نہیں ہے جس کا نقصان لا محالہ ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ بحیثیت استاد میرا فرض ہے کہ اپنے وطن کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کروں۔ آج جبکہ کم و بیش دو کروڑساٹھ لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں ہم سب کا فریضہ ہے کہ’’ ہر بچے کا تعلیم حاصل کرنے کا حق ‘‘سلوگن پر عمل کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ ترقی یافتہ اقوام ہمیشہ حکومت کی طرف نہیں دیکھا کرتیں بلکہ کچھ فلاحی کاموں کے لیے افراد کو آگے آنا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں معاشرے کے ان افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انہی صفحات پر نہ صرف لکھتا ہوں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بذات خود مل کر معاشرے کو ان کا تعارف کرواتا ہوں۔ آج میں آپ سے ایک ایسی شخصیت سے ملوانا چاہتا ہوں جن کی تعلیمی میدان میں خاطر خواہ خدمات ہیں۔ جن کا خواب ہے کہ ہر بچہ سکول جائے اور پڑھ لکھ کر ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ استاد محترم جناب اصغر علی قمر صاحب اس وقت تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مردانہ ہیں۔ میں نے جب مختلف اساتذہ کرام سے ان کے متعلق معلومات جمع کیں تو سب ہی اس بات سے متفق دکھائی دیے کہ اصغر علی قمر صاحب نے تحصیل بھر کے سکولوں میں اپنے طوفانی دوروں کے ذریعے سرپرائز وزٹ کیے، اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کو نہ صرف شاباش دیتے ہیں بلکہ موقع پر بیسٹ پرفارمنس سرٹیفکیٹ سے بھی نوازتے ہیں جس کے نتیجے میں تحصیل لیاقت پور کے اساتذہ میں نیا جذبہ پیدا ہو چکا ہے اور گرمی کی چھٹیوں میں بھی اساتذہ سکولوں میں جاتے ہیں اور بچوں کو ایک پر فضا تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے لیے درختوں اور پودوں کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں بلکہ نئے پودے لگا کر شجر کاری مہم میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اصغر علی قمرایک انتہائی شفیق اور درد دل رکھنے والے آفیسر ہیں۔ آپ نے 1997 میں بحیثیت EST محکمہ ایجوکیشن کو جوائن کیا۔ اس کے بعد اپنی محنت اور لگن سے 2012 میں PPSC کا امتحان پاس کر کے 18 سکیل میں چلے گئے۔ آٹھ سال گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فیروزہ میںوائس پرنسپل اور سبجیکٹ اسپیشلسٹ کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔ 10 اکتوبر 2022 میں تحصیل لیاقت پور میں بطور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تعیناتی ہوئی۔ آج جبکہ ان کو محض ڈیڑھ سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے انہوں نے نہ صرف ڈپٹی آفس کا نقشہ بدل دیا ہے بلکہ تحصیل بھر کے اساتذہ میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے نتیجے میں معیار تعلیم میں کافی بہتری آئی ہے۔ تحصیل لیاقت پور رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کافی بڑی ہے۔ اس کا کل رقبہ 3262 مربع کلومیٹر اور آبادی کم و بیش دس لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ اس بڑی آبادی کے لیے ٹوٹل 663 پرائمری و ایلیمنٹری سکول ہیںجن میں مردانہ 306 پرائمری سکول ہیں۔ 25 ایلیمنٹری سکول ہیں۔ 74 سیکنڈری سکول ہیں جن میں 47 بوائز اور 37 گرلز ہیں۔ جبکہ گرلز پرائمری سکولوں کی تعداد 332 ہے۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اصغر علی قمر کے انڈر 331 سکول ہیںجن میں 25 ایلیمنٹری ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے یہ سکول ناکافی ہیں لیکن اگر لگن سچی ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اصغر علی قمر سے جب ملا تو انہوں نے مجھے ایک بات بار بار کی کہ فوج کے بعد محکمہ تعلیم میں سلیکشن کا کڑا معیار ہونا بہت ضروری ہے۔ سکولوں میں سیاسی مداخلت کسی طور بھی نہ ہو۔ دور دراز کے دیہاتوں میں پرائمری سکولوں میں یہ مسئلے عام ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں لائی جائیںتاکہ نسلِ نو آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ آپ علم دوست شخصیت ہیں اس لیے اساتذہ کی قدر کرتے ہیں اور ان کے مسائل کو فوری حل کرتے ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصدہے کہ کام کرنا ہے اور وہ بھی کسی بھی قسم کی سفارش اور رشوت کے بغیر۔ وہ اساتذہ کو Motivate کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک آفیسر کی غلط یا ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پورا نظام زمین بوس ہو سکتا ہے، ایک اچھے افسرکے عمل میں مثبت سوچ اور مثبت بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مثبت باتوں اور عمل سے ساتھیوں اور ماتحتوں کے ذہن میں کامیابی کا تصور آسانی سےاُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنی بصیرت و دانش شیئر کر کے آپ انہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک ایسا آفیسر موجودہےجو حکومت کے ساتھ مخلص ہونے کے ساتھ ان کے ساتھ بھی مخلص ہے اور ان کے فائدے کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے۔ میں نے جب ان سے یہ پوچھا کہ ایک اچھا استاد بننے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہیئے تو انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے وسیع مطالعہ، پھر خود اعتمادی، مثبت سوچ اور سوچا سمجھا نصب العین انتہائی اہم ہے۔ دوسروں تک اپنی بات پہنچانا بھی ایک فن ہے اور آج دور جدید میں اساتذہ کو اس خوبی سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے ان کا مزید کہنا تھا کہ میرٹ پر اساتذہ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ان کی وقتاً فوقتاً بہتر تربیت بھی ضروری ہےتاکہ بدلتے حالات کے مطابق طلبا کی تربیت کر سکیں۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں