پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو حکومت پر تنقید ہوتی ہے۔ حکومت نے اس مشکل کا حل نکال لیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر اعظم نے پٹرول کی قیمتوں کے تعین میں حکومتی اختیار ختم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔اب پٹرول مہنگا ہو گا تو حکومت شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہہ دیا کرے گی کہ یہ مہنگائی ہم نے تو نہیں کی ۔ یہ تو متعلقہ کمپنیوں نے کی ہے۔ یہ کوئ نہی بتائے گا کہ ایک لٹر پٹرول ڈیزل پر حکومت 70روپے کمارہی ہے اور ہمارے وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ حکومت کاروبار نہی کرتی یہ کاروبار نہی تو اور کیا ہےآپ حکومت کی بصیرت دیکھیے، یعنی کیا وہ واقعی یہ سمجھتی ہے کہ اس ہنر کاری سے وہ عوام کی نظر میں سرخرو ہو جائے گی؟سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اگر عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ذمہ داری سے فرار اختیار کرتی ہے اور عوام کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے تو اس حکومت کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟حکومت بجٹ بناتی ہے تو عوام سے کہا جاتا ہے ہم تو آپ کے غم میں بہت دبلے ہو رہے ہیں لیکن کیا کریں آئی ایم ایف نہیں مان رہی۔ ہم مجبور ہیں۔بجٹ پاس ہو جاتا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو ایک روز وزیر اعظم خطاب فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: ’تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دو، آئی فون پر ٹیکس لگا دو، بجلی پر ٹیکس لگا دو، کیا یہ طریقہ ہے؟‘لوگ اپنے وزیر اعظم کو سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اپنی ہی حکومت میں خود ہی یہ فیصلے کرنے کے بعد وزیر اعظم اب کس سے یہ شکوے کر رہے ہیں۔عمران خان کی حکومت تھی، روپے کی قدر گر گئی، صاحب نے ادائے بے نیازی سے کہا، ’میں کیا کروں ، مجھے تو خود ٹی وی سے پتا چلا ہے کہ روپے کی قدر گر گئی ہے۔‘خان صاحب ہی کے دور حکومت میں کسی نے سڑک بنانے کا مطالبہ کیا تو ارشاد ہوا ’وزیر اعظم سڑکیں بنانے کے لیے نہیں آتا۔‘ کوئی حالات کی اونر شپ لینے کو تیار نہیں۔ حکومت کے سربراہ وزیر اعظم ہیں لیکن وہ بھی سوال پوچھتے پھرتے ہیں کہ ٹیکس بڑھا دیے بجلی مہنگی کر دی کیا ایسا ہوتا ہے؟ نواز شریف ن لیگ کے سربراہ ہیں مگر وہ بھی سامنے آ کر اس حکومت کے فیصلوں کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔سب سے بڑی حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی ہے وہ بھی حکومتی اقدامات کی زمہ داری لینے کو تیار نہی ایک عجیب سی لاتعلقی ہے۔ سیاست کی دنیا میں یہ ایک نیا اور پریشان کن تجربہ ہے۔سوال اب یہ ہے کہ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی، اگر یہ ان سے فرار اختیار کرتی ہے ، اگر اس کے پاس عوام کی محرومیوں کے حل کے لیے کوئی فارمولا نہیں ہے تو پھر ان کا جواز کیا ہے؟اسی طرح اگر پارلیمان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی، ملک کو صدیوں پرانے قوانین سے چلایا جاتا ہے، قانون سازی آرڈی نینسوں کے ذریعے ہو جاتی ہے، پالیسیاں کہیں اور طے ہو جاتی ہیں، تو اس پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر قریب چھ کروڑ روپے خرچ کرنا کہاں کی معقولیت ہے؟کیوں نہ دیگر اداروں کی طرح پارلیمان اور کابینہ کی ہوش ربا مراعات اور مایوس کن کارکردگی کا بھی تقابل کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کیا جائے۔ یہ ختم تو بھلے نہ کی جائیں کہ برائے وزن بیت ہی سہی، جمہوریت ہوتی تو غنیمت اور بہترین انتقام ہی ہے۔ لیکن اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ ان کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ قومی خزانے کا تو کچھ بھلا ہو۔جو اب چلا رہے ہیں وہی چلاتے رہیں گے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں