غریب عوام کا دکھ کیسے کم ہوگا…. ؟

مختلف اعداد وشمار کے مطابق تقربیاََنو کروڑ کے قریب پاکستانی خطہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔مڈل کلاس کا وجود ختم ہورہاہے۔ مہنگائی بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں نےعام پاکستانی کی خوشیوں کو نگل لیا ہے ۔پاکستان اس وقت جس طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔اس نے غریب اور درمیانے طبقہ کو دیوارسے لگا دیا ہے۔اس کے لئے آگے بڑھنے، ترقی کرنے کے برابر مواقع نہ ہونے کے باعث وہ سخت محنت کے باوجود ناکام ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے عوام پریشان کن معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ ہر شخص انفرادی طور پر غیر مطمئن نظر آتا ہے۔تازہ ترین ایک سروے کے مطابق 43فیصدپاکستانی کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔ایک طرف اس ملک کی بھوک افلاس غربت کی چکی میں پسنے والے کروڑں تعداد میں غریب عوام اور مڈل کلاس ہے جس کے لیے نہ بجلی ہے اور نہ پینے کا صاف پانی ہے، نہ دو وقت کی روٹی اور نہ معیاری تعلیم وصحت کی سہولیات۔ان تمام سہولیات پر 20فیصدمراعات یافتہ طبقہ کا قبضہ ہے۔ایوان اقتدار سے لیکرافسرشاہی تک ان کا راج ہے۔
یہ80فیصدطبقہ پچھلے سترسال سے زیادہ عرصہ سے عوام پر حکمران ہے ۔یہ زمیندار،جاگیردار، سردار، چوہدری، تمن دار اور وڈیرے، بڑے صنعت کار ہیں ان ہی کے خانوادوں سے ہی اعلی سرکاری عہدوں پرفائزہیں ۔سوائے چند کے جو عام عوام میں سے ہونے کے باوجودان اعلی عہدوں تک پہنچ پاتے ہیں۔
اس ملک کے ہر اقتدار پر ان کا اختیار ہے۔ تمام تر اداروں میں ان کی رسائی ہے۔ سرکاری اداروں پر ان کا راج ہے۔تھانہ کچری ان کے طابع ہوتی ہے۔ان کی بہم تعلق داری بڑی مضبوط ہے۔ایک بھائی سیاست میں تو دوسرا پولیس یا قانون کےکسی اعلی عہدے پر یا پھر اعلی سرکاری افسر۔
بڑے بڑے نامور تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھانے کا ان کو حق حاصل ہے۔ ان کے لئے نہ صاف پانی مسئلہ ہے اور نہ بجلی کے بل اور لوڈشیڈنگ ماضی ان کا تھا، حال انکا ہے اور مستقبل پران کا قبضہ نظر آتاہے۔ان کے لئے نہ مہنگائی مسئلہ ہے نہ صاف پانی مسئلہ ہے اور نہ بجلی۔ صاف پانی کے لئے منرل واٹر دستیاب ہے اور بجلی کے لیے جرنیٹر ،سولرز موجود ہیں ۔اعلی ہسپتال ان کی صحت کی ضرویات کے لیے موجود ہیں دوسری جانب 80فیصد عوام ہے، یہ لوگ اس ملک کی بھوک افلاس غربت کی چکی میں پسنے والے کروڑں تعداد میں غریب عوام اور مڈل کلاس ہے۔ جس کے لیے نہ پینے کا صاف پانی ہے اور نہ دو وقت کی روٹی اور نہ معیاری تعلیم وصحت کی سہولیات۔
کہیں یہ لوگ لائنوں میں لگ کر صاف پانی تلاش کرتے نظر آئیں گے تو کہیں یہ پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے آٹے کی تلاش میں سر گرداں نظر آ ئیں گے اور کہیں سرکاری ہسپتالوں کی راہداریوں اور کبھی روزی کی تلاش میں جدوجہد کرتے نظر آ ئیں گے۔ تو کہیں بےنظیر انکم سکیم کی رقم حصول کے لی ےسرگرداں ۔
ان ہی میں ایک طبقہ چھوٹا کسان جو اِس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ،بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ اِس وقت ملک میں 88فیصدچھوٹے کسان دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہےہیں۔ ان کوپیداوا رکی مناسب قیمت نہیں ملتی، کبھی گنا اور کبھی گندم کی قیمت کے لیےیہ لوگ خوار ہوتے ہیں ۔مڈل مین ان کی آمدن کو کھاجاتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس وقت تاریخ کی بد ترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں ،لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نہ صرف معیشت متاثر ہوئی ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی انڈسٹری کی بندش کے باعث بے روزگاری کا سیلاب امڈ رہا ہے۔10گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ نے عام انسانوں کو جس طرح متاثر کیا ہے اس کا اندازہ جنریٹرز اوریوپی ایس کے ذریعے پنکھوں اور ائرکنڈیشن میں بیٹھنے والے نہیں لگا سکتے۔
شدید گرمی کے آغازکے ساتھ ہی لوگوں کو رات رات بھر جاگ کر گزارنا پڑتی ہے۔امتحانوں کی تیاری کرنے والے بچوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہے جو دن میں گرمی اور رات کو اندھیروں اور مچھروں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور امتحانات دے رہے ہیں۔کسان کو نہری پانی کی کمی کاسامنا تو تھا ہی اب لوڈشیڈنگ نے ان کے ٹیوب ویل بھی خشک کر دیئے ہیں۔یہ ان کروڑوں بھوکے ننگوں کی کہانی ہے جو اس ملک کا 80فیصدہے جس کی محنت کے باعث آج ہم معزز کہلاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی مشکل سے اپنی اوراپنے خاندان کی روٹی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی دن گھر کا چولہا جلتا ہے اور کسی دن نہیں بھی جلتا۔
یہی لوگ ہیں جو 12 سے 16 گھنٹے گرمی اور لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتے ہیں، جن کی راتیں جاگ جاگ کے بجلی کے انتظار میں بسر ہوتی ہیں کچھ تو لوڈشیڈنگ سونے نہیں دیتی اورباقی بجلی کے بل کے خوف سے ان کی نیندیں اڑجاتی ہیں۔جبکہ حکومتیں آسانی کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ کی خبر سنا دیتے ہیںاور ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔
دوسری جانب ان غیر مراعات یافتہ طبقہ کے بچے ان مراعات یافتہ طبقہ کے بچوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ انٹری ٹیسٹ، داخلہ ٹیسٹ، انٹرویو ہر جگہ 80فیصدعوام کے بچے ان مراعات یافتہ طبقہ کے بچوں سے مات کھا جاتے ہیں اور ملک کی اعلی ترین بیورکریسی، اعلی ترین آرمی سروس پر ان کا قبضہ بر قرار رہتا ہے۔سیاست تو ویسے ہی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ سترسال سے سیاست اور ریاست پر انکا بغیر شرکت کے قبضہ ہے کوئی بھی الیکشن ہویہی چند خاندان جیتے ہیں کبھی یہ خود جیت جاتے ہیں تو کبھی ان کے بھائی اور بھتیجے اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں۔ جب عورتوں کی نمائندگی کی بات ہوتی ہے تو بھی یہ کسی اور کو حصہ دینے پر تیار نہیں ہوتے وہاں بھی ان کی بہنیں بیٹیوں اور بیویوں کو ایوان اقتدار تک جانا ہوتا ہے۔موجودہ ایوان کی اکثریت بھی ان پر مبنی ہےکیونکہ عام آدمی میں تو اتنی سکت نہیں کہ وہ اس نظام میں رہتے ہوئےکونسلر بھی بن سکے۔ اس کے لئے بھی دس پندرہ لاکھ درکار ہوتے ہیں وہ تو سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ نا مناسب ماحولیاتی حالات کی وجہ سے بیماریوں نے ان کی زندگیوں میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ ادویات کے اخراجات ان کو کمر سیدھی نہیں کرنے دیتے۔بیماری کی صورت میں پورا دن سرکاری ہسپتالوں کی لمبی لائنوں میں ذلیل ہو کر گھٹیا اور سستی دوائی انکا مقدر ہے۔ بڑے بڑے پرائیوٹ ہسپتالوں تک نہ ان کی رسائی ہے اور نہ یہ لوگ اُس کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ کسی بیماری کی صورت میں جب سرکاری ہسپتال کے دھکوں سے علاج نہیں ہو پاتا تو یہ مجبور لوگ گھر کا زیور یا بھینس بیچ کر ان پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کے قابل ہوتے ہیں۔ورنہ ان کروڑوں لوگوں کے لیے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نہ ڈاکٹر کے پا س پوری طرح دیکھنے کا وقت ہے نہ معیاری ادویات اور سہولیات ہیں۔ ڈاکٹروں کی عدم توجہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شام میں ان ڈاکٹروں نے اپنے پرائیوٹ ہسپتالوں کو بھی چلانا ہوتا ہے۔جب یہ لوگ اس پر اگر کبھی احتجاج کرتے ہیں تومار پڑتی ہے۔جب یہ کروڑوں لوگ جو اس ملک کی اکژیت کی نمائندگی کر تے ہیں اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کی خواہش کرتے ہیں تو وہ کبھی پوری نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں سکت نہیں کہ بھاری فیسوں والے پرائیوٹ سکول ،کالج ،یونیورسٹیوں میں اپنے بچے داخل کراسکیں۔
ان کے لئے سرکاری سکول ہیںجہاں نہ بلڈنگ اچھی، نہ فرنیچر ہے اور نہ ہی اساتذہ پڑھانے پر تیارہیں۔ اساتذہ کے بیٹھنے کے لئے فرنیچر تک نہیں تو بچوں کے لئے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بجلی اور پنکھے تو شاید چند سکولوں میں ہوں، ورنہ بہت سے سکولوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ بڑے بڑے شہروں کے سرکاری سکولوں میں بچوں کے لئے فرنیچر کا مناسب انتظام نہیںتو دور دراز دیہات کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہو تا کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔18 ویں ترمیم سے غریب کی حالت نہیں بدلی نہ بدلے گی ۔ہمیں یہ فرسودہ نظام بدلنا ہوگا اور ایسے انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا ہوگا جہاں سب کے لئے برابر مواقع ہوں۔ہمیں اگر اپنے ملک کے عام آدمی کو اقتدار اور اختیار تک لانا ہوگا اور سماجی انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا ہوگا۔ ملک میں وسیع پیمانے پر زرعی اصلاحات کر نا ہوں گی تاکہ کوئی ایسی جاگیر نہ بچے جہاں ہزاروں بھوکے، غیر تعلیم یافتہ، غیر مہذب ایک آقا کی غلامی کرتے ہوں۔ وسیع پیمانے پرزرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارنہ نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
دوسرا بڑا اور اہم قدم ہمیں طبقاتی نظام تعلیم کو دفن کرنا ہوگا۔ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کرنا ہوگا، سرکاری سکول اور بڑے بڑے پرائیوٹ سکولوں کا نصاب ایک ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ اپنی مرضی کا نصاب پڑھائے۔یوں سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے والا عام آدمی اعلی درسگاہ کے بچے کا ہر سطح پر مقابلہ کے قابل ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ تمام منتخب ارکان اور افسر شاہی کو پابند بنایا جائے کہ ان کے بچے صرف سرکاری سکولوں میں پڑھ سکیں گے۔سرکاری سکولوں کی حالت خود درست ہوجائے گی۔
ہر شہری کومعیاری صحت کی سہولیا ت فراہم کر نا ریاست کی ذمہ داری ہو، سرکاری ہسپتالوں کی حالت اور کارگردگی موثر بنانے کے لیے اصلاحات کرنی ہونگی۔ اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز کی خدمات دور دراز سرکاری ہسپتالوں تک فراہم کی جائیں۔ ہر شخص کو مفت اور معیاری صحت کی سہولیات بہم پہنچائی جا نے کا انتظام ہو۔
تما م سرکاری ڈاکٹر اور سرکاری سکول ٹیچر /پروفیسر کے لئے پرائیوٹ ہسپتال میں پر یکٹس اور پرائیوٹ اکیڈمی میں تعلیم دینے کی ممانعت ہو، اساتذہ اور ڈاکٹرز کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ وہ باعزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں، جو پرائیویٹ پر یکٹس کے خواہش مند ہیں وہ نوکریاں چھوڑ دیں اور اپنا کاروبار چلائیں۔تعلیم کو کاروبار بنانے کے تمام مواقع بند کردیے جائیں۔
لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ریاست وسیع پیمانے پر چھوٹی انڈسٹری کو فروغ دے۔ایگر و بیس انڈسٹری قائم کی جائے۔جن علاقوں میں جس طرح کی فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں وہاں اسی طرح کی انڈسٹر ی قائم کی جائے مثلاََ ملتان میں آم، ٹماٹر، کپاس، گنا اور سورج مکھی کے حوالے سے انڈسٹر ی لگائی جائے۔ چھوٹے کاشتکاروں کو سستے داموں کھاد، بیج اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔کھاد بیج زرعی ادویات کے لئے بلاسود قرضوں کی فراہمی فضلوں کی انشورنس اور وافر مقدار میں پانی کی فراہمی کر کے ہم زراعت کو کئی گُنا فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی کے سا تھ زمین کا جدید انداز میں استعمال روایتی فضلوں کے سا تھ ساتھ نقدآور سبزیوں کی کاشت اوراس کی بیرون ملک برآمد کے ذریعے عام کسان کی حالت کو بدلا جاسکتا ہے۔
فوری ضرورت ہے کہ ملک سے پانی کے ضیاع کو روکا جائے۔پانی کی بد انتظامی کو بہتر انداز میں طے کیا جائے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہےجہاں پانی کو سٹور کیا جائے اور ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے۔انرجی کی کمی کو دور کرنے کے لئے ملک کے طول و عرض میں پن بجلی کے چھوٹے منصوبے شروع کی جائیں جہاں ہم پانی اورکے ذریعے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔سا را سال سورج چمکتا ہے ہمیں شمسی توانائی کے حصول کے لئے ان ممالک سے مدد لینی چاہیے جو سورج سے توانائی حاصل کر رہے ہیں، ہمیں چین کی طرز پر سولر اور دیگر طریقوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنے ہونگے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کا فارمولا بنایا جائےتاکہ بڑے صوبوں کی محرومیاں دور ہوں۔ مضبوط مقامی حکومت کا نظام قائم ہوجو مالی ،انتظامی اور سیاسی طور پر خود مختار ہو ۔یو ں ہم اس ملک کو روشن خوشحال اور سماجی انصاف پر مبنی ملک بنا سکتے ہیں۔
اب سوا ل یہ ہے کہ یہ انقلابی اقدامات کون اُٹھائے؟ کون اس ملک میں جاری استحصا ل کو ختم کرنے کے لئے آواز بلند کرے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ اور مجھے تلاش کرنا ہے۔