مسلم لیگ ن کے ورکرز کی آواز !جناب نواز شریف مسلم لیگ ن کو سیاسی خودکشی سے بچانا ہوگالمحہ فکریہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی کامیابی اور حکومت سازی کے بنیادی مرکز پنجاب میں اس وقت ایم این اے،ایم پی ایز اور کارکنان کی جو بےتوقیری کی جارہی ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ پارلیمینٹرین اور کارکنان شدید مایوس ہیں۔یہ بات زبان زدعام ہوچکی ہے کہ یہ مسلم لیگ ن کا آخری دور ہے بلکہ آخری سال ہے اس لیے ن لیگ کی لیڈرشپ اپنے قریبی افراد اور افسران کو نواز کر یہاں سے فرار ہوجائیں گے۔کارکنان حتیٰ کہ ایم این اے اور ایم پی ایز بھی اگلی منزل کی تلاش کیلئے مشورے کرتے پھر رہے ہیں۔سنئیر افسران،سیکرٹری اور کمشنر تو پارلیمنٹرین کو ملاقات کا ٹائم دینا گوارا نہیں کرتے جبکہ جونئیرلیول کے افسران ڈپٹی کمشنر ،اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی پی او کو بھی “بڑے سرکاری افسر” کی طرف سے ویڈیو لنک میں یہ کہا جاتا ہے کہ تمہیں کسی سیاسی فرد نے سیٹ پر نہیں لگایا میں نے لگایا ہے اس لیے تمہیں کسی کو دینے کی ضرورت نہیں اگر ایم این اے یا ایم پی اے خود آتا ہے تو زیادہ سے زیادہ چائے کے ساتھ بسکٹ دے کر رخصت کردینا۔ لیڈرشپ اس بات سے کیوں بے خبر ہے کہ پاکستان میں ووٹوں کا حصول روٹین کی ٹرانسفر پوسٹنگ اور انتظامی و ترقیاتی کاموں کے بدولت ہی ممکن ہوتا۔جب پارلیمینٹرین ہی ٹکے ٹوکری” ہوچکے ہیں تو پھر آپ کن کے سہارے اپنی حکومت قائم رکھ سکیں گے۔*اس سے قبل کے بہت دیر ہوجائے اور سب کچھ ختم ہوجائے خدارا ہوش کے ناخن لیں اور کارکنان کے ختم ہوتے اعتماد اور اپنی حکومت کو بچانے کیلئے کارکنان کو عزت دیں۔انتظامی افسران کی بجائے سندھ کی طرز پر قانون میں ترمیم کرکے سیاسی افراد کو نئے بلدیاتی الیکشن تک تحصیل و ضلعی کونسل کا ایڈمنسٹریٹربنایا جائے۔پی ٹی آئی حکومت اور نگران دور کے پراسیکیوٹرز اور اٹارنی بنے لاء افسران مسلم لیگ کی عدالتی ناکامیوں کا سبب بن رہے ہیں، فوری طور پر مسلم لیگ ن لائرز فورم سے مخلص وکلاء کو تعینات کیا جائے۔مارکیٹ اور زکوۃ کمیٹیاں فعال کی جائیں اور وہاں کارکنان کو ذمہ داریاں دی جائیں۔چیف سیکرٹری اور آئی جی وزیر اعلیٰ پنجاب کو میرٹ کے”سپنوں“کی دنیا دکھا کر ”پک اینڈ چوز“ کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ افسران جو اخلاقی اور مالی لحاظ سے بدنام زمانہ کرپٹ ترین ہیں، بزدار اور پرویز الٰہی دور کے بڑے بینیفشریز تھے اور ٹرانسفر سمیت پنجاب بدری کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار تھے ابھی تک اہم ترین سیٹوں پر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔سنگین اخلاقی الزامات اور سر عام مالی کرپشن میں ملوث افسران کی سرپرستی کرنے والے سینئر افسران اور کرتا دھرتاحقیقتاً مسلم لیگ ن کے پنجاب سے خاتمے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔سوائے چند ایک کے کوئی بھی وزیر یا سیکرٹری ایسا نہیں کہ جو صحیح سے اپنے محکمے کی ذمہ داریاں اداکررہا ہو۔جن سے ایک محکمہ سنبھالا نہیں جاتا ان کو دیگر محکموں کے اضافی چارج دینا ہرگز عقلمندی نہیں۔وزیر اعلیٰ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ کوئی بھی ”سپرہیرو“ نہیں ہوتا کہ اسے دو سے تین محکموں کی ذمہ داری دے دی جائے۔ اضافی محکموں سے متعلقہ وزیر اور سیکرٹری تو ضرور خوش ہوگا لیکن عوامی فلاح و بہبود کے سارے کام ٹھپ ہوچکے ہیں۔بہت سارے محکموں کے سیاسی عہدے خالی ہیں جس سے نا صرف سیاسی عہدیداران و کارکنان میں شدید مایوسی پھیل رہی ہے بلکہ مذکورہ محکموں اور اداروں کے افسران سیاہ و سفید کے مالک بن کر کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ سیاسی افراد کو نظر انداز کرنا واقعی سیاسی خود کشی کے مترداف ہے۔یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ لیڈرشپ کے برے وقت میں جیلیں کاٹنے اور مار کھانے کا کام صرف سیاسی ورکر کرتے ہیں جبکہ افسران کی اکثریت وعدہ معاف گواہ بن کر سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالتی اور اپنا دامن بچا کر نکل جاتی ہے۔کوئی بھی رکن پارلیمنٹیرین یا سیاسی کارکن عہدوں کے لالچ اور ڈر کی وجہ سے آپ کو سچ بتانے کی جرات نہیں کرتا۔ اس لیے بطور مخلص دوست اور خیرخواہ کے آپ کو حقیقت سے آگاہ کررہا ہوں۔کیونکہ مجھے نہ تو کسی عہدے کے چھن جانے کا لالچ ہے اور نہ ہی کچھ کھونے کا ڈر ہے۔ابھی بھی وقت ہے بیورکریسی کی بجائے سیاسی افراد کو عزت دیجئے ورنہ یاد رکھیے گا کہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔عوامی اعتماد اور کارکنان کی عزت بحالی کیلئے چند سنئیر افسران کو پنجاب سے نکالنے اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی ری شفلنگ ناگزیر ہے۔کیونکہ یہ بھی زبان زد عام ہے کہ وزیر اعلیٰ کے کہنے پر کام ہو نہ ہوکوئی گارنٹی نہیں کیونکہ بیوروکریسی اگر مگر ایسے ویسے کر کے مریم نواز کو ٹال جاتے ہیں لیکن اس شخص کے کہنے پر ہر کام فوراً سے پہلے ہو جاتا ہے۔کیونکہ بیوروکریٹ میں بھی یہ بات مشہور ہوتی جارہی ہے کہ یہ ن لیگ کی آخری باری ہے جبکہ وہ شخص ”فیوچر مین“ ہے۔سب سے اہم پنجاب میں سیاسی کامیابی کیلئے صوبائی افسران کو اہم پوزیشن دینا ضروری ہے کیونکہ دوسرے صوبوں کے افسران عارضی ہوتے ہیں جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افسران زیادہ اخلاص کے ساتھ سیاسی سپورٹ فراہم کرسکتے ہیں۔ہر منسٹری اور ادارے کا الگ سے سربراہ اور وزیر لگایا جائے ۔ کابینہ بڑی نہیں ہونی چاہیے یہ سارے بیوروکریسی کے پڑھائے گئے غلط سبق ہیں کیونکہ بیوروکریٹ چاہتا ہے کہ وزیر نہ ہی ہو تو اچھا ہے تاکہ وہ اپنی من مرضی سے منسٹری میں لوٹ مار کر سکے کیونکہ سیاسی وزراء اور عہدے داران پارٹی سے مخلص ہوتے ہیں اور کرپشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ اس لیے بیوروکریسی کبھی نہیں چاہتی کہ سیاسی کارکنان آگے آئیں ۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں