ہمارے معاشرے میں آجکل شخصیت پرستی عروج پر ہے.لوگ اپنی پسندیدہ شخصیت کی خاطر لڑنے مرنے اور اپنے تعلقات خراب کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ وہ ناسور ہے جو معاشرے میں صحیح اور غلط کے تصور کو ختم کر دیتا ہے۔شخصیت پرستی ایک دیمک کی طرح ملک و قوم کی نظریاتی اساس کو کھا جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کو عدم استحکام سے بھی دوچار کر دیتی ہے۔عقل و شعور سے بیگانہ کر دینے والی شخصیت پرستی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی بلکہ اسے حیوان بنا دیتی ہے۔انسانی ذہن پہ جب بھی کسی شخصیت کا سحر طاری ہوتا ہے تو وہ انسان عقل و شعور سے بیگانہ اور قوت فیصلہ سے بلکل عاری ہو جاتا ہے۔۔ شخصیت پرست انسان کی زندگی کا محور و مرکز اس کی پسندیدہ شخصیات ہوتی ہیں۔ وہ شخصت چاہے مذہبی ہو یا سیاسی وہ زندگی کے ہر شعبے میں انہی کا پیروکار اور پجاری نظر آتا ہے۔ ایسا انسان اپنی من پسند شخصیت کے خلاف کسی بھی قسم کی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا چاہے وہ بات حقیقت پر مبنی اور سچی ہی کیوں نہ ہو۔؟ :-گویا ”شخصیت پرستی انسان کی عقل پہ حاوی ہوکر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے اور وہ اپنی پسندیدہ شخصیت کو بے عیب اور نقص سے پاک سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگتا ہے۔“ ”شخصیت پرستی بت پرستی سے بھی زیادہ مہلک ہے اور انسان کی دینی اور سماجی فکروں کو تباہ کردیتی ہے۔“
” شخصیت پرستی ایک کینسر کی مانند ہے جو قوموں کے پورے جسم مءں پھیل کر اسے عضو معطل بنا کر رکھ دیتی ہے۔“ آج شخصیت پرستی ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں کچھ اس طرح سے سرایت کر چکی ہے کہ اب سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ ”شخصیت کا تعلق اگر مذہب یا مسلک سے ہو تو کسی اختلافی مسلے کے زیر بحث آنے پر ہمیشہ اپنے ہی مسلک کی نمائندگی کرنے والے عالم کے نکتہ نظر کو فالو کیا جاتا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ قران و سنت اور حدیث اس اختلافی مسلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں جوکہ مسائل کے حل کی کسوٹی ہیں۔“ ”اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی ادارے میں ہونے والی کسی تقریب میں انتظامیہ کی طرف سے کسی غیر جانبدار یا معتدل شخصیت کی بجائےہمیشہ اپنے ہی ہم مسلک عالم یا سیاسی شخصیت کو مدعو کیا جاتا ہے حالانکہ اداروں میں تمام مسالک اور جماعتوں کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔“
میں نے بارہا اپنے کالمز کے ذریعے مختلف مسالک کے علماء کرام سے استدعاء کی ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات کو برقرار رکھ کر بھی آپ کسی ایک مشترکہ مقصد یا نکتہ نظر مثلا“دینی مدارس میں اصلاحات“ کے موضوع پر متفق ہو کر اور باہم مل کر کام کر سکتے ہیں لیکن شخصیت پرستی نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔
سیاسی شعبے میں شخصیت پرستی اور موروثیت کی مثالیں روز روشن کی طرح آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسی شخصیت پرستی اور موروثیت نے ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ موروثیت ہی کی وجہ سے کوئی نئی قیادت سامنے نہیں آتی۔وہی گھسے پٹے چہرے بار بار سامنے آتے ہیں جنہیں عوام دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکی ہوتی ہے۔برسوں ایک ہی خاندان اپنی نسلوں کو آگے لاتا رہتا ہے اور برسر اقتدار رہتا ہے یوں یہ کسی کو آگے آنے ہی نہیں دیتے کیونکہ انتخاب لڑنا اب پیسے کا کھیل بن چکا ہے اور یہ لوگ دوران اقتدار اتنا پیسہ اکٹھا کر چکے ہوتے ہیں جو انکی آئندہ سات نسلوں کیلئے بھی کافی ہوتا ہے۔ان لوگوں کے پاس اہلیت ہو نہ ہو۔قابلیت ہو نہ ہو اور تعلیمی استعداد ہو نہ ہو الیکشن انہوں نے ہی لڑنا ہے کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہے اور یہی ان کی اہلیت ہے۔عام آدمی تو اب الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا چاہے وہ جتنا مرضی پڑھا لکھا ہو یا قابل ہو۔ ”آپ نے دیکھا ہوگا کہ دہائیوں سے انتقال کر جانے والی بعض شخصیات کے آج بھی سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں زندہ ہونے کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور پارٹی کو اب بھی انکی خاندانی ملکیت اور وراثت سمجھا اور جاناجاتا ہے۔“ ”کچھ سیاسی شخصیات دینی اور مذہبی امور سے بلکل نابلد اور دینی علم نہ رکھنے کے باوجود محض اسلامی ٹچ دینے کیلئے اس پر را زنی کرتی رہتی ہیں لیکن انکے پیروکار انہیں ہی سچ مانتے ہیں” یہ لوگ اپنی پسندیدہ مذہبی یا سیاسی شخصیت کی محبت میں اپنے گھر اپنے خاندان اپنے عزیز و اقارب اور اپنے احباب سے مخالفت مول لے لیتے ہیں لیکن اپنے ممدوح کی شان میں گستاخی ہرگزبرداشت نہیں کرتے۔ الیکشن مہم کے دوران ہمیں ایسے مناظر بڑی وافر مقدار میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جب پورے کا پورا خاندان اور گھر تقسیم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ انجمن شہریان منچن آباد نے مذہبی اور سیاسی میدانوں میں اس روائیت سے بغاوت کرتے ہوئے شخصیت پرستی کی وباء کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔بقول اکبر اللہ آبادی:-
زمانے کو شاید بتانا پڑے گا
نیا رنگ اپنا دکھانا پڑے گا
قیادت، امامت، خلافت کی خاطر
جوانوں کو پھر سے جگانا پڑے گا
جو تاریکیوں کو مٹادے جہاں سے
دیا کوئی ایسا جلانا پڑے گا
جہاں پر محبت کا ہو بول بالا
کوئی شہر ایسا بسانا پڑے گا
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں