وطن کی فکر کر ناداں

وطن کی فکر کر ناداں

کسی بھی ملک کے سیاستدان ہی ملک بناتے ہیں،ملک کو ترقی دیتے ہیں اور ملک کی تنزلی کا سبب بھی یہی بنتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ سیاست دان قوم کے ساتھ کس قدر مخلص و خیر خواہ ہیں اور ان کے دلوں میں ان کا کتنا درد ہے۔ اس کی مثال قائد اعظم ہمارے سامنے ہے کہ قلیل عرصے میں وہ کچھ کر دکھایا جس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بے یار و مددگار ہونے کے باوجود ایک نئی ریاست کی بنا ڈالی اور مسلمانانِ ہند کو آزادی کا تحفہ دیا۔نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے اور مجیب الرحمان و ذوالفقار بھٹو کی بھی ،اس لیے قیادت کا مخلص ہونا پہلی شرط ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ قائد اعظم ؒ کو اللہ تبارک نے مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے۔ ان کے بعد خان لیاقت علی جیسا مخلص و بے لوث لیڈر ملا تو امریکہ نے ابتدا ہی سے اپنے بغض و عناد کو پروان چڑھانا شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں قتل کر دیا گیا ساتھ ہی ان کے قاتل کو بھی موقع پر ہی گولی کا نشانہ بنا کر قاتل کا نام و نشان مٹا دیا گیا حتی کہ ان کے قتل کی ہونے والی انکوائری کو بھی فضا ہی میں طیارے کو نشانہ بنا کر ملیامیٹ کر دیا گیا۔ اس کے بعد وطن عزیز میں یکے بعد دیگرے ایسی حکومتیں آئیں جن کا اپنا مخصوص ایجنڈا تھا اور وہ اس کے تحت اپنا اپنا فرض نبھاتے ہوئے ملک کو غیر مستحکم کر کے چلتے بنے،پھر مارشل لاء کا دور شروع ہوا تو اس نے پورے ایک عشرے تک جمہوریت کو اپنے نرغے میں لیے رکھا۔ ہماری بدقسمتی کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ لولی لنگڑی جمہوریت آتی اور ملٹری اپنا حصہ بانٹنے ایکشن میں آجاتی حتی کہ کم و بیش چار عشرے فوجی حکومت نے جمہوریت اور ملک کو رگیدا، ایسے میں ملک نے کیا ترقی کرنا تھی اور کیا جمہوریت نے قدم جمانے تھے؟ ایوبی دور ہی میں ملک کو بھکاری بنا دیا گیاپھر چل سو چل۔ 76 سال ملک کو آزاد ہوئے بیت چکے ہیں مگر ہمارا کشکول کسی بھی دور میں بند نہیں ہوا جبکہ ہماری دنیا میں شناخت ہی بھکاری قوم کے نام سے شہرت پذیر ہے۔ اس وقت ملک کی سیاسی و معاشی حالت انتہائی دگرگوں ہے اور آئی ایم ایف کے وینٹیلیٹر کی مدد سے سروائیو کر رہا ہے وہ بھی ان حالات میں کہ ملک کے بچے بچے کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کا بچہ بچہ دو لاکھ روپے کا مقروض ہے اور ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ قرض کا طوق گردن میں لے کر آتا ہے اور اسی میں سانس لیتا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سال رواں کے بجٹ میں 9100 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہےضروری نہیں ہے کہ اتنا ریونیو حاصل بھی ہو جائے ۔جب کہ ہمیں بیرونی قرضوں کی ادائیگی تو کیا صرف سالانہ ادا کی جانی والی سود کی رقم 9800 ارب بنتی ہے گویا ہمیں سالانہ سات ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ اگر اسے روزانہ کی بنیاد پر دیکھیں تو ہماری ایک دن کی آمدنی 25 ارب روپے اور سود کی ادائیگی پر خرچ 27 ارب روپے بنتے ہیں گویا ہر روز ہمیں صرف سود کی ادائیگی کی مد میں دو ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔یہ سب کچھ سیاست دانوں کا کیا دھرا ہے کہ ہم ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان سیاست دانوںکے اخراجات ہیں کہ بندر کے طویلے کی طرح طویل، قوم وینٹی لیٹرر پر ہے ،ملک ڈیفالٹ لائن پر ہے اور ہمارے بجٹ کا نصف سے زیادہ حکومتی اللوں تللوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف مطالبہ کرتی ہے کہ اپنے غیر ترقیاتی و حکومتی اخراجات کم کرو،حکومت اس میں کمی کرنے کی بجائے مسلسل اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کے اضافے اور مہنگائی کو نقطہ عروج پر پہنچا کر عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کی آپس کی لڑائی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مسلسل سعی بہم کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ معیشت ویسے ہی دھڑام سے نیچے سے نیچے لڑھکتی جا رہی ہے۔برسرِ اقتدار پارٹی پی ٹی آئی کو بری طرح تہ تیغ کرنا چاہتی ہے، اس کے لیڈر کو جیل میں بند کر رکھا ہے اور اس کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پارٹی کو بین کرنے اور اسے دہشت گرد قرار دینے کی ہر ممکن سعی کی جا رہی ہے۔آنکھیں بند کر کے اور اس بات کا ادراک کیے بغیر کہ اس وقت یہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے جس کا اظہار عوام ووٹوں کے ذریعے ببانگ دہل کر چکے ہیں ۔کسی پارٹی کو ختم کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے اور وہ بھی اس پارٹی کو جس کی مقبولیت باوجود صدر ہزار رکاوٹوں کے بام عروج پر ہے اور برسر اقتدار پارٹی کسی کی چھاؤں چتر میں فارم 47 کی بنیاد پر ایک طرف اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔دوسری طرف مخالف پارٹی کو ملیامیٹ کیا جا رہا ہے۔ فزکس کے تھرڈ لاء آف موشن کے مطابق جتنی فورس ایک سمت میں لگائیں گے اتنی ہی قوت سے وہ چیز دوبارہ مخالف سمت میں ری ایکٹ کر کے اپنی اصلی حالت میں آئے گی اور اس عمل کے دوران ہر راستے کی رکاوٹ کو وہ تہ تیغ کر دے گی۔ فارم 45 کی حکومت کے پاؤں تلے ریت ہے، وہ یہ ادراک کیے بغیر کہ اس کا اقتدار کتنے دن قائم رہتا ہے اور پھر تبدیلی خواہ وہ بیلٹ کے ذریعے آئے یا کسی انقلاب کے نتیجے میں ان کے ساتھ کیا کچھ ہوگا اور یہ کہ ملکی استحکام کو کس قدر نقصان پہنچے گا وہ چھکے پہ چھکا مارے جا رہی ہے۔ ملک کے بڑے ادارے ایسے فیصلے دے رہے ہیں جس سے استحکام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ملک بڑی تیزی سے افرا تفری کی طرف بڑھ رہا ہے۔اداروں کی ہمدردیاں بظاہر متاثرہ پارٹی کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ حالیہ عدالت عظمی کی مخصوص سیٹوں کے بارے میں فیصلے کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور بحث کا ایک نیا باب کھل گیا ہے جس میں 5:8 کے فیصلے کو آئین کی شکل میں اچھالا جا رہا ہے اور یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آئین کو دوبارہ لکھا گیا ہے بالفاظ دیگر آئینی ادارے نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے جس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے اور عدالت عظمیٰ کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے نہ کہ آئین کو دوبارہ لکھنا اور بنانا۔ متاثرہ پارٹی تھی ہی نہیں اس کا وجود ہی انتخابی نشان چھین کر بے نام کر دیا گیا تھا، اس نے عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا تھا اور کچھ مانگا ہی نہیں تھا کہ اس کی گود میں وہ بہت کچھ بن مانگے ڈال کر سیاسی عدم استحکام کا راستہ واکیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک دفعہ پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کیا گیا ہے اور حقائق کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اب اس کی ریویو پٹیشن ڈال دی گئی ہے اور اسے اسی بنچ نے سننا ہے جس نے پہلے فیصلہ دیا ہے اس وقت موجودہ چیف جسٹس بھی اپنی آئینی مدت ملازمت پوری کر کے گھر جا چکے ہوں گے جن پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ فیصلے کو ریویو میں کرنے کے لیے ایڈہاک جج لگا رہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے یہ کام نہیں کر رہے بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے مطابق کر رہی ہے۔ برسر اقتدار حکومت کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ حزب اختلاف پارٹی کو نیست و نابود کر دیا جائے جو کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں عوام میں غم و غصہ پیدا ہوگا جس کے نتیجے میں ملک اور بھی عدم استحکام کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ان سے حتی الوسع انتقام لیا جائے اسے پسِ دیوار زنداں کر دیا جائے اور اپنے اقتدار کو طوالت دی جائے کہ صرف وہی ملک کی خیر خواہ جماعت ہے اور دوسری پارٹی ملک دشمن۔حالانکہ عوام میں اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ اسے ختم کرنے کی سوچ ہی احمقانہ ہے اور اسی زعم میں وہ نعرہ مستانہ الاپ رہی ہے کہ اسے بنگلہ بدھو کی طرح بغاوت پر آمادہ نہ کیا جائے اور ایک اور مجیب الرحمن نہ بنایا جائے۔ اس وقت ہر دو جانب سے عقل کے ناخن کوئی بھی نہیں لے رہا۔ ایک پارٹی کی ہٹ دھرمی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو کسی طرح بھی ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ اس پر بغاوت کا الزام (نو مئی کے حوالے سے) چسپاں ہے وہ الٹا معافی مانگنے اور اس کے لیڈر کو رہا کرنے کی پیشگی شرط عائد کرتی ہے ۔دوسری جانب سے اپنی کوتاہی ،زیادتی اور معافی مانگنے پر زور ہے دونوں انتہاؤں کے درمیان عام آدمی پسا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا عذاب ، بے روزگاری کی مصیبت اپنی جگہ ملک کے اندر استحکام نہیں ہے اور سیاسی پارہ بلند درجے پر ہے۔دشمن کی عقابی نظریں ان حالات کو دیکھ کر اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔خطے میں کشیدگی ہمارے لیے الارم ہے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہونے والے ہنگاموں سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پاک فوج اور لیوی کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ ازلی ابدی دشمن پہلے ایک تھا اب افغانستان کے طالبان پاکستان میں مقیم دہشت گرد حکومت افغانستان کی سرپرستی میں ملک میں دہشت گردی پھیلانے پر سرگرم عمل ہیں۔عالمی طور پر پاکستان یکہ و تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی ناکام ہو کر رہ گئی ہے اور امریکی ریپبلکن پارٹی کے ممبر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر جے ڈی وائس نے دھمکی دی ہے کہ ہم اسلامی بم پاکستان سے چھین کر رہیں گے (معاذ اللہ)بیشتر ازیں پاکستان اور طالبان کے درمیان چار طویل ڈائیلاگ کرانے والے امریکی نمائندہ زلمے خلیل نے یہ گوہر فشانی کی تھی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تشویش ناک ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے عمران خان کے حق میں بیان دیے ہیں اور جنرل مبین اور جنرل باجوہ کے حامی تھے۔ ایک طرف ملکی استحکام اس قدر خطرے میں ہے، دوسری طرف دو پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ میں انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ایسے میں افواہ ساز فیکٹریاں سرگرم عمل ہیں اور ایمرجنسی یا مارشل کے ڈراوے دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ جمہوریت کی بساط لپٹ دی جائے اور ایک مرتبہ پھر تیسری قوت کو موقع ملے کہ ملکی باگ ڈور خود سنبھالنے پر مجبور ہو جائے ،سیاسی پارٹیوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک اور ملکی معیشت کی فکر کرنی چاہیے۔ ملک ہوگا تو سیاست دان سیاست کر سکیں گے۔انہیں ملکی سالمیت عزیز ہے نہ ملک و قوم کا استحکام اور ترقی، افراتفری اور ذاتیات کی ایسی گندی سیاست ملک کی تاریخ میں اس درجے پر پہلی دفعہ دیکھی جا رہی ہے۔ خدانخواستہ اس کا کس قدر گھناؤنا انجام نکلے گا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔ ایسے گندے سیاستدان ملک کو ڈبونے کا باعث بنتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مقتدر ترین ادارہ میدان میں آئے اور جنگ کا سیز فائر کرا کر دونوں فریقین کو ڈائیلاگ کی میز پر لا کر مفاہمت کرائے اور وطن عزیز کو پیش آمدہ خطرات سے نجات دلائے۔ خدانخواستہ دیر ہو جائے اور جنگ میں ایک کی چونچ اور ایک کی دم ہی کٹ جائے اور ملکی سالمیت پر (میرے منہ میں خاک)
کسی قسم کی آنچ آئے ورنہ ؔ یاد رہے
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں