نشتر ٹو کی تعمیر میں گھٹیا مٹیریل کا استعمال وزیر اعلیٰ اسے ٹیسٹ کیس قرار دیں

کرپشن ریاست پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کو چکی ہے اس حمام میں سرکاری محکمے کے چپڑاسی سے لے کر صدر وزیراعظم تک سب برہنہ ہیں اور اب دور ایسا اگیا ہے کہ اس برہنگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی نہی کرتے عوام کی رگوں سے نچوڑے جانے والے ٹیکس کا بیشتر حصہ تو سیاسی اشرافیہ کی عہاشیوں پر ہی خرچ ہو جاتا ہے جو معمولی مقدار عوامی فلاح کے لیے بچتی ہے اس میں سے افسرشاہی اور ٹھیکیداروں کا کمیشن نکل جائے تو پھر عوام کہ پاس وہی بچتا ہے جو نشتر ٹو ہسپتال کے اہم ترین منصوبے کی تکمیل سے پہلے ہی مون سون کی پہلی بارش نے عیاں کر دیا ہے جنوبی پنجاب کے سب سے اہم اور بڑے نشتر ہسپتال کی توسیع کا منصوبہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں شروع ہوا جس کا ابتدائ تخمینہ 5 ارب روپے کا تھا لیکن پراجیکٹ میں تاخیر کے باعث یہ تخمینہ نو ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اپنی مختصر مدت میں دلچسپی لے کر اس پراجیکٹ پر کام تیز کرایا اور افتتاح بھی کر دیاابھی اتبوں روپے کے اس منصوبے ہر کام جاری ہے کہ مون سون کی بارشوں کے آغاز پر ہی نشتر ٹو کی ایک دیوار شکستہ ہو گئی اور چھتیں غریب کی جھونپڑی کی طرح ٹپکنے لگیں اور ہسپتال کے دفاتر اور وارڈز میں پانی جمع ہو گیا گزشتہ ماہ بھی تیز آندھی میں نشتر ٹو کی ایک دیوار گر گئی تھی اور دو مزدور جاں بحق جبکہ تین زخمی ہو گئے تھے ڈپٹی کمشنر ملتان نے انکوائری کے لیے سیکریٹری ہیلتھ کو مراسلہ لکھا تھا لیکن کوئ اثر نہی ہوا اور ایک اور حادثہ ہو گیا پی ایم ائے کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں انتہائ ناقص مٹیریل استعمال کیا جارہا ہے منصوبے میں وسیع پیمانے پر کرپشن کی انکوائری کرائ جائےٹھیکیدار بزات خود مٹیریل میں گھپلا کر ہی نہی سکتا اگر محکمہ صحت کے ملتان اور لاہور کے افسران اور سیکریٹری ہیلتھ حتیٰ کہ متعلقہ وزیر تک کی پوری چین ملوث نہ ہو اور اگر یہ ملوث نہی تو مجرمانہ چشم پوشی ہا کوتاہی کے مرتکب قرار پاتے ہیں ہسپتال ایک حساس ترین جگہ ہے جہاں نازک ترین حالت کے مریض بھی زیر علاج ہوتے ہیں اہسے میں ایسی عمارت کے مکمل فعال ہونے کے بعد اگر ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں تو قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے تب بھی کسی افسر یا ٹھیکیدار کو مجرم نہی ٹھہرایا جا سکے گامحکمہ صحت کے لاہوری ناخداوں نے اندھی سے دیوار گرنے کی انکوائری بھی دبا دی تھی اور اس معاملے کو بھی دبایا جا رہا ہے کیونکہ اگر انکوائری شروع ہوتی ہے تو بات لاہور تک جائے گی خانیوال حادثے میں بھی نرس پر مدعا ڈال کر باقی سب کو اور ادویات ساز کمپنی سے کمیشن لینے والے افسران کو صاف بچا لیا گیا تھا وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو چاہیے کہ اپنی حکومت کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے اسے ایک ٹیسٹ کیس بنائیں اور غیر جانبدارانہ انکوائری کے بعد کرپشن کے تمام زمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائ جائے۔