مٹی ، ہوا ،پانی ،گل اور گلشن کی شادابی اُلفت وفا کا مجسم ۔اس تعلق کی مضبوطی و پائیداری کامعیار اُسی صورت ممکن ہے جب لحد تا مہد وفا کا عنصر قائم و دائم رہے ۔یہ ناطہ اتنا مضبوط ہے کہ خوشبو اور تراوٹ کے ساتھ نوید جسم و جاں بھی ہے ۔سرسبز ڈالیوں کے درمیان مہکتے پھول چمن کی خوبصورتی میں جہاں نکھار پیدا کرتے ہیں وہاں اچھی صحت کے ضامن بھی ہیں۔بیشک ان باغات کی آرائش و زیبائش میں باغبان کی شبانہ روز محنت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔چنانچہ باغبان ان کی پرورش و زیباوآرائش میں اپنی حیات کے قیمتی ایام نچھاور کر کے انہیں تناور بنا دیتا ہے ۔سرخ رنگوں سے سجی و مہکتی کہکشاں کی رونق دراصل اُس فرد کی انتھک محنت کا ثمر ہے جس کی جدوجہد روح کی تسکین کو راحت و سکون سے سرفراز کرنے میں اپنا مقام رکھتی ہے ۔قدرت نے بابا آدم ؑ اور اماں حواؑ کو روئے زمین پر اُتار کر نسل انسانی کی بنیاد رکھی ۔سانسوں کا ترنم وقت کی تیز رفتاری کے نظام کو تیزی سے گردشوں میں تبدیل کرتا ہوا مسلسل رواں دواں ہے ۔خالق نے اس سفر کو آگے کی جانب بڑھاتے ہوئے جوڑے بنائے یعنی مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ۔نکاح کو سنت نبوی ﷺ کی فضلیت حاصل ہوئی اور یوں اُمت محمدیہ ﷺ جوڑوں کی شکل میں بقائے انسانی کی تکمیل میں وفا کا پیکر ثابت ہوئی ۔بیشک اسی طرح ہر مسکن کی زینت اُس گھرانے کے اماں ،بابا ہیں۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اماں جانی کے قدموں کی فضیلت وبرکت ۔یہ کہ جنت یہاں موجود اور والد ماجد کے قدموں میں عظمت ۔والدین چمن کا وہ معطر گلاب ہیں جن کی بھینی بھینی خوشبو سے گھر کی فضاتو کیا درودیوار سے برکت و رحمت کا نزول ہر لمحہ ہر آن اولاد پر کرم کریم کی باران بن کر پھواڑ کی صورت میں برستا رہتا ہے ۔قارئین کرام! والدین اولاد کیلئے سائبان ہونے کے ساتھ دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔کامیابی کا جھومر سر کا تاج صرف اُن ہی کیلئے نوید مسرت ہے جس اولاد سے ماں باپ کو فرمابرداری و احترام کی مسرت نصیب ہو ۔اُس گھر کی مثال اُس بنجر و ویران کھنڈر کی سی ہے جہاں والدین اولاد کے ہاتھوں تکلیف و مصائب سے دوچار رہیں ۔والد گرم و سرد موسم میں اولاد کے سکھ چین کیلئے اپنا شب و روز قربان کر دیتا ہے ۔والدہ ماجدہ وہ مبارک ہستی ہیں جو بچوں کو سکھ پہنچانے کی پاداش میں خود بھوکی رہ کر وقت گذار لیتی ہیں لیکن بچوں کی تعلیم وتربیت ،خوراک پر خاص توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ والدین کی ناراضگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی ہے ۔وہ گھرانہ کبھی شاداب نہیں ہو سکتا جہاں بزرگ والدین کی آنکھیں اولاد کے دکھ کے سبب بلکتی رہیں۔ جی قارئین! وقت کی رفتار نے تیزی سے کروٹ بدلی اور نظام اچانک ترقی کی جانب بڑھنے لگا ۔ماحول میں بتدیلی کا جو عنصر عروج پانے لگا اُس میں والدین اولاد کے ستم کی وجہ سے ڈرے سہمے رہنے لگے ۔حکومت پنجاب نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے اشتراک سے1975ء میں پہلا اولڈ ہوم ایج “عافیت”کے نام سے لاہور میں قائم کیا اس کے بعد 5اور ادارے ملتان ، راولپنڈی،نارووال، ساہیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قائم کئے گئے اور اب ان کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔یہ ادارے بزرگ خواتین و مرد حضرات کو رہائش، خوراک ، طبی اور تفریح سہولیات مہیاکر رہے ہیں۔ہر ادارہ میں تقریباً50کے قریب افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ان ادارہ جات میں وہ مردوخواتین داخل ہو سکتے ہیں جن کی عمر 60سال یا اس سے زائد ہو ۔ان ادارہ جات میں وہ افراد داخل ہو سکتے ہیں جو بنیادی طور پر صحت مند ہوں۔ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا پاگل ، معذورافراد کو داخل نہیں کیا جاتا۔درخواست دہندہ بذریعہ رجسٹریشن فارم صداقت کے ساتھ حالات تحریر کر کے داخل ہو سکتا ہے ۔بدقسمتی سے یہاں آنے والے بزرگ مر دوخواتین کی تعداد ایسی ہے جنہیں حقیقی یا سوتیلی اولاد اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتی ۔ان ادارہ جات میں مقیم افراد کو دیگر سہولیات کے ساتھ ماہانہ 2000/-تا3000/- روپے جیب خرچ کے طور پر دیا جاتا ہے ۔مرد و خواتین کیلئے علیٰحدہ پورشنز کا اہتمام کیا گیا ہے ۔بے یارو مددگار اولاد کی گرم لُو سے جھلستے یہ بوڑھے والدین سائبان کے متلاشی بلآخر اولڈ ہوم ایج کو ہی اپنا مسکن گردانتے ہوئے زندگی کے بقیہ ایام گذارنے کے بعد سفر لحد کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ “والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیںتو انہیں اُف تک نہ کہو اور مت جھڑکو اور ان سے عزت کے ساتھ پیش آئو”۔محبوب کبریا شافی رحمت محمد کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “وہ شخص ذلیل ہو جائے ، پھر ذلیل ہو جائے، پھر ذلیل ہو جائے جس نے والدین کو دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں نہ گیا “۔ ایک شخص حضور کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ۔ مدنی کریم ﷺ نے فرمایا “تیری ماں”اس نے دوبارہ پوچھا”تیری ماں”اسکے بعد آپؐ نے فرمایا تیرا باپ”۔گویا والدین کے حقوق میں سب سے زیادہ ماں کے حقوق ہیں۔قارئین کرام! والدین حیات ہیں تو ان کے ادب و احترام میں ہرگز کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔ اگر والد ماجد رحلت فرما گئے ہیں تو ان کی مغفرت کیلئے زیادہ سے زیادہ ختم قرآن ،درود پاک ،صدقہ و استغفار اور ثواب کی نیت سے نیکی اور فلاح کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں ۔والدہ ماجدہ حیات ہیں تو ان کے نورانی چہرے کی الصبح زیارت کو معمول بنائیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجانے میں اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیںیہی جنت ہے اور یہی جنت کی نوید ۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں