شیخ احسن ظفر، سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ پنجاب ،مورخہ 21-6-2024 کو لاہور میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے۔ انکی تدفین واپڈا ٹاون لاہور قبرستان میں کی گئی۔
بس یہی ہے داستان، زندگی اپنی کہ ہم
زندگی بہر، زندگی کی آرزو کرتے رہے
شیخ احسن ظفر نے بطورِ سرکاری ملازم اپنی خدمات انجام دیں وہ ایک ریٹائرڈ ملازم تھےکہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انسان میں وہ صلاحیتیں ناپید ہو جاتی ہیں جو دوران ملازمت انسان انجام دیتا ہے لیکن احسن ظفر (مرحوم) نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھرپور اور توانا زندگی بسر کی وہ فکر و علم سے آشنائی رکھتے۔
انکے ہاں بڑے بڑے نامور شعراء کرام ادیب شاعر اور مصور تشریف لاتے انہوں نے اپنے والد (مرحوم) شیخ ظفر اقبال کی رحلت کے بعد انکے ادبی ورثے کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اس کو تقویت دیتے رہے انہیں بھی اپنے والد کی طرح ادب سے دلچسپی تھی خود بھی شاعرانہ مزاج رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ملک کی ممتاز ترین شخصیات سے انکے مراسم تھے ان کی یادگار گیلری مرکز ادبیات تھی جو ان کے والد گرامی شیخ ظفر اقبال ( مرحوم ) نے قائم کی تھی بڑا ہی وضع دار ادبی فکری اور تہذیبی گھرانہ ہے شیخ احسن ظفر (مرحوم) ڈیرہ غازی خان کی ممتاز سیاس و سماجی،، فکری و علمی اور تہذیبی شناخت رکھنے والی شخصیت شیخ زعیم سجاد بلاک نمبر 16 ڈی جی خان کے برادرِ نسبتی تھے۔ انہی کی نسبت سے (مرحوم) شیخ ظفر اقبال اور انکے بیٹے شیخ احسن ظفر سے نسبت تھی انکے مزاج انکی طبیعت اور انکے اٹھنے بیٹھنے میں محبتوں کی مہک آتی۔
وہ جہاں بھی تعینات رہے تو اپنی فکر کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے بڑی بڑی باوقار، علمی و ادبی شخصیات سے نا صرف انکا تعلق تھا بلکہ وہ ملکی و بین الاقوامی شخصیات کے موثر کردار کے بھی فین تھے انہوں نے آگاہی کے فروغ کے لئے کام کیا۔وہ دھرتی کا ایک عظیم اثاثہ اور فخر تھےانہوں نے فکری آگاہی، شاعرانہ صلاحیتوں، بہتریں پالیسی ساز ہونے اور مصوری کے فروغ کے فقیدالمثال مظاہر کئے وہ شاعری مزاج شناش تھے اس حوالے سے متحرک اور جاندار کردار کے حامل شاعروں کی قومی تہذیبی، نظریاتی اور انقلابی شاعری کا پرچار اپنے حلقہ ذوق و احباب اور دوستوں میں کیا کرتے یہی وجہ ہے کہ وہ چلے گئے ہمیشہ کے لئے جہاں سب نے آخر لوٹ کر جانا ہے لیکن شیخ احسن ظفر کا بے مثال کردار ناقابل فراموش حقیقت ہے ان میں ایک کرب تھا احساس تھا وہ بظاہر تو اظہار نہ کرتے مگر دبے لفظوں میں مزاحمت کار بھی تھے پاکستان میں فکری تبدیلی کے داعی تھے اخلاقی سرگرمیوں سے سماج کی ہیت بدلنا چاہتے تھے وہ جاری استحصالی فکر کا خاتمہ کرنے کے داعی تھے باغی نہ سہی مگر باغیانہ خیالات رکھتے تھے وہ بے وسیلہ اور کمزوروں کا حوصلہ بڑھاتے عام طبقات میں جینے کی امنگ پیدا کرنے کی فکر کو عام کرتے انہوں نے خطے کی اہمیت و افادیت اس کے وسائل یہاں کی فکری، تہذیبی اقدار کے فروغ کیلئے بھی خدمات انجام دیں انہیں اکثر سماجی محرومیوں اور پسماندگی کو ختم کرنے کا جنون سوار رہتا، وہ فرسودہ و ناکارہ دم توڑتی روایات کے خلاف بہرپور اور عملی جدوجہد کو میراث تصور کیا کرتے ان میں تعلق نبھانے کی فکر موجود رہتی وہ دوستوں میں آگاہی و شعور کا جامع وسیلہ تھے محبت شفقت ریاضیت، انکساری وعاجزی سے پیش آنا انکی فکر تھی وہ دھرتی و علاقائی سطح پر ایک ناقابل فراموش اثاثہ تھے۔
یونہی غرور محبت کے اک اشارے پر
کسی سے روٹھ گیا هوں کوئی مناے مجھے
شیخ احسن ظفر نےادارہ جاتی سطح پر ملکی محرومیوں اور پسماندگی کے لیے ہوشربا مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کو محرومیوں سے نجات دلانے کے لیے بے لوث کام کیا وہ محنت کش طبقات کے حقوق و مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کردار ادا کرتے وہ نہایت عمدہ شخص نہیں بلکہ ایک عہد بے مثل محبتوں کو فروغ دینے والی بڑی شخصیت تھے وہ ادیب تھے، ادب پرور تھے، اسد آللہ غالب، فیض احمد فیض، میر تقی میر انکا عشق تھے وہ انقلابی شاعری کا اکثر تذکرہ کرتے وہ محفلوں کی شان تھے شاعروں میں شاعر، سیاست دانوں میں سیاست دان، نہایت اچھے وضع دار خاندانی آدمی تھے انکی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں وہ زندگی جیے تو حسن اخلاق سے جیے؛ ان کا نصب العین انسانی بھلائی تھا، وہ روادار انسان تھے، فیض نوازی انکے وسعت ظرف میں شامل تھی، خاصی علمی و ادبی شخصیت کے حامل اس انسان کا بچھڑ جانا جہاں سماج کے لئے بڑا خلا ہے وہاں دکھی انسانیت و بے سہارا اور مظلوم عوام کے لئے بھی بڑا سانحہ ہے وہ دوستوں میں نہایت محترم مقام رکھتے تھے اور یقینا اگر انکی زندگی میں یہ تحریر انکے روبرو ہوتی تو ضرور نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے بلکہ رہنمائی بھی فرماتے خیر ان کا اس جہاں فانی سے رحلت فرما جانا عزیز و اقارب ، قریبی دوستوں و رستے داران کے لئے بڑا سانحہ ہےانکا ڈیرہ غازی خان کی بڑی بڑی شخصیات سے تعلق تھا کئی شخصیات ان میں سے بچھڑ چکی ہیں لیکن نہایت سجندہ فکر کے حامل سیاسی و سماجی،، فکری وعلمی اور ادبی شخصیت صاحبزادہ حاجی رحیم آصف مجددی سے وہ اکثر رابطہ میں رہتے اور تمام ملنے جلنے والے دوستوں کی خیریت دریافت کرتے انکی وفات دوستوں و احباب اور اہلِ فکر کا ایک بڑا نقصان ہے شیخ احسن ظفر ایک شخصیت ایک عہد اور بے مثال روادار طبیعت کے مالک تھے محبتوں کا فروغ ان کا نصب العین تھا وہ دوست و احباب کی خوشی و غمی کے روادار تھے وہ بے سہارا و بے آسرا لوگوں کی گمنام آواز تھے انکے ورثاء میں بیوہ اور بیٹا شامل ہیں۔مرحوم احسن ظفر کا خاندان سرکاری ملاذمت کے ساتھ ساتھ علم و فن کے شعبہ سے بھی وابستہ رہا ہے۔
(مرحوم) احسن ظفر کے والد شیخ ظفر اقبال مال روڈ لاہور پر واقع کواپرہ آرٹ گیلری و بک شاپ (Coopera Art Gallery & Book Shop) کے ساتھ تین دہائیوں (انّنیسوں ساٹھ ستّر اسّی) تک وابستہ رہے تھے اور بطور جنرل مینیجر ریٹائر ہوئے تھے۔ کواپرا بک شاپ علم و تدریس و سیاست و ثقافت کا مرکز رہا ہے اور لاتعداد سیاسی و سماجی شخصیات کیلئے مسکن و محور کی حیثیت رکھتا رہا ہے۔ مرحوم احسن ظفر کے فرزند ,” سعود بن احسن“ بھی انگریزی اخبار ”دی ڈیلی ٹائمز پاکستان“ The Daily Times Pakistan “ کیلئے گزشتہ دس سال سے باقاعدگی سے انگریزی کالم لکھتے آرہے ہیں۔اس اخبار کو سابق گورنر پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مرحوم سلمان تاثیر شہید کی فیملی چلا رہی ہے …شیخ احسن ظفر کی وفات پر یہاں ان سے عقیدت و محبت کرنے والوں کو دلی رنج و افسوس ہوا۔تمام افراد سے دعائے ِمغفرت کی التماس ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ
انکی گراں قدر تہذیبی، فکری ، علمی،ادبی و سماجی خدمات حلقہ اہل علم و دانش کے لیے ناقابل فراموش ہیں واضح رہے کہ ڈیرہ غازی خان میں جن فکری و علمی شخصیات سے انکا تعلق اور محبتیں قائم تھیں ان میں سابق کنٹرولر پاکستان ٹیلی ویژن ساجد منصور قیصرانی، ڈاکٹر نوید غوث، انجینئر وحید غوث، پروفیسر میجر امجد فاروق قیصرانی معروف صحافی و کالم نگار ڈاکٹر محمود شیخ، صاحبزداہ حاجی رحیم آصف مجددی شامل ہیں جنھوں نے شیخ احسن ظفر کی وفات پر دلی ہمدردی و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انکی مغفرت کی دعا کی اللہ رب العزت شیخ احسن ظفر کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے لواحقین کو صبر وجمیل عطاء فرمائے آمین۔