چالیس خاندانوں کو نوازنے کے لیے عوام کو لوٹنا بند کیا جائے

گزشتہ دو سے تین سالوں کے دوران بجلی کے بل ریاست پاکستان کی عوام کے لیے وہ بھیانک ترین سچائ بن چکے ہیں جس سے نظریں ملانے کے خوف سے ہی عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائ روپے کی قیمت کی بے توقیری اور بےروزگاری اور غربت کی شرح میں خوفناک حد تک اضافے کے باعث اب بجلی گیس کے بل ادا کرنا عوام کی استتاعت سے باہر ہوگیا ہے حکمران اپنی نا اہلیاں اور کرپشن چھپانے کے لیے ملبہ آئ ایم ایف پر ڈال کر خود کو بری الزمہ کر لیتے ہیں لیکن نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے سابقہ ادوار میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز جنہیں آئ پی پیز کہا جاتا ہے ان سے کیے گئے معاہدوں کا زکر کوئ نہی کرتا جو اب نہ صرف عوام بلکہ حکومت کے گلے میں پھنسی ہڈی بن چکے ہیں ان معاہدوں کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہےسابق نگران وفاقی وزیر اور پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے منہگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیاں 1.95 ٹریلین روپے ( 1950 ارب) ہیں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کھربوں روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیاہےگوہر اعجاز نے کہا کہ آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے فی یونٹ خرید رہی ہے، حکومت کول پاورپلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ جبکہ ونڈ اور سولر کی 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کر رہی ہےسابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ ان منہگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 ٹریلین روپے ( 1950 ارب روپے) ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے اور دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے، یہ صرف تین پلانٹس کے لیے 370 ارب روپے بنتے ہیںانہوں نے بتایا کہ سارا سال یہ پلانٹس 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر چل رہے ہیں، یہ سب معاہدوں میں “کیپیسٹی پیمنٹ” کی اصطلاح کی وجہ سے ہے، نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہےپیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز نے کہا کہ صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی خریدی جائے، یہ پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں، 28 فیصد نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، اس لحاظ سے 80 فیصد پلانٹس پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہےگوہر اعجاز نے کہا کہ سب کو اپنے ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں کے ساتھ ان معاہدوں کے خلاف اٹھنا چاہیے، اب میں قوم پر چھوڑتا ہوں کہ وہ آئی پی پیز پر کیا فیصلہ کرتے ہیں، ایک سال میں کئی ہزار ارب اضافی بل دینے والی قوم رو رہی ہے، گھریلو صارفین آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے سبب ماہانہ ہزاروں روپے بل دے رہے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ بند پاور پلانٹس پر اربوں روپے ماہانہ چارجز لینے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے، اگر ہم صرف 200 ارب روپے کے ایک گروپ کے کیپیسٹی چارج کو تیار کردہ بجلی میں تبدیل کر دیں تو پاکستان کے تمام تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم ہو کر 10 فیصد تک آ سکتا ہے، حکومت کی نیت ٹھیک ہو تو 60 روزمیں بجلی سستی ہو سکتی ہےانہوں نے کہا کہ بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبار کو دیوالیہ کر رہی ہے، حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقا زیادہ اہم ہے یا 40خاندانوں کے لیے یقینی منافع ضروری ہے۔سابق وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی۔ارباب اقتدار کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں فقط چالیس خاندانوں کو اربوں کھربوں روپے گھر بیٹھے دے کر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہےضرورت اس امر کی ہے کہ آئ پی پیز سے کیے جانے والے معاہدوں کو عوام کے سامنے لایا جائے اور ان پر نظر ثانی کی جائے اس سلسلے میں اگر قانون سازی کی غ ہے تو وہ بھی اس وقت میں ممکن ہے لیکن عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف فراہم کیا جائے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں