محنت لگن اور جستجو ہو تو کامیابی کو روکنا ممکن نہیں “اللہ رب العزت کا بھی واضع فرمان ہے کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے”ایسی ایک منفرد اور بے مثال شخیصیت ڈی ایس پی کروڑ پکا رضوان خان ہیں جن کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے اور آج کل بطور ڈی ایس پی کروڑ پکا تعینات ہیںایک دبنگ آفیسر ہیں وہ اقدار و روایات اور خاندانی تہذیب و تمدن کے امین ہیں انکی اور انکے خاندان کی مثالی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں رضوان خان کا کردار پولیس فورس میں نہایت متحرک آفیسر کا ہے وہ پولیس فورس میں کسی تحریک سے کم نہیں اپنے شعبے میں انتہائی توانا، فعال اور متحرک رہتے ہیں انکی ترجحات میں جہاں مظلوموں، محکوموں، بے بسوں اور بےکسوں کو انصاف مہیا کرنا ہے وہاں وہ جرائم کی بیخ کنی کیلئے بھی فعال رہتے ہیں خاص طور پر عوام کے جان و مال کی حفاظت کو اولین تصور کرتے ہیںانکا عزم ہے کہ وہ چور ڈاکو اور لٹیروں کو کسی صورت نہیں چھوڑتے۔امن ترقی اور خوشحالی کے لئے بھی انکا کردار لائق تحسین ہے اپنی ماہر ٹیم کے ہمراہ شرپسندوں، سماج دشمنوں، قمار بازوں، منشیات فروشوں اور بےحیائی پھیلانے والوں کے خلاف اپنا مثالی کردار ادا کر رہے ہیں ایک جرات مند، بلند حوصلہ، استقامت کے پیکر، خوش مزاج، روا دار، خوش گفتار اور ملنسار انسان ہیں انکو یہ خوبیاں اپنے اجداد سے ورثے میں ملی ہیں ڈسڑکٹ لیہ سے انکا تعلق ہے اخلاص و محبت کے تقاضوں کو نبھانا کوئی رضوان خان اور انکے خاندان سے سیکھے وہ پیشہ ورانہ امور کے بہترین ماہر آفیسر ہیں معاملات کو سمجھنا اور انکو جرات و دلیری سے حل کرنا انکا خاصا ہےپولیس فورس کے علاؤہ رضوان خان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں جو نہایت قابل غور ہیں۔ وہ درد کا مسیحا، کرب کا پاسبان، احساس کا نگہبان، اذیت و دکھ کا ساتھی، خلوص کا پیکر، مہربان، دوست نواز، سخاوت کے جذبوں سے لبریز، وسعت دسترخوان سے آشنا ایک ایسی حقیقت و سچائی ہے جو زندہ و جاوید جذبوں کا امین کہلاتا ہے اور ادھورے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشاں ہے وہ امن و سلامتی کا داعی ہے ایسی فورس جس میں جستجو ہی عیاں رہتی ہے مگر وہ اسی جستجو کا پاس لئے آگے بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے انسپکٹر سے آج ڈی ایس پی بننے والی عہد بےمثل شخصیت ہیں جن کو خراج تحسین نہ کرنا حوصلہ شکنی ہی کہلاتا ہے لہذا رضوان خان کی خوبصورت و معتبر شخصیت پر انہیں لفظوں کا پیراہن دیکر کچھ ادھورے قرض ادا کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ممکن ہے انکی محبتوں کا قرض ادا ہو جائے بہرحال رضوان خان ایک ایسی شخصیت ہیں جو ہمیشہ توانا و متحرک رہتے ہیں نہایت سلجھے ہوئے سلیقہ مند آفیسر ہیں ان سے دو دہائیوں سے قبل کا تعلق ہے غالباً 1995-96 کی بات ہے جب رضوان خان تھانہ سٹی ڈیرہ غازی خان میں بطور ایس ایچ او تعینات تھے اس زمانے سے آج تک احترام و محبت کا نہ ختم ہونے والا تعلق ہے رضوان خان ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں شاید یہ ذوقِ انہیں وراثت میں ملا ہے کیونکہ ان کے والد گرامی بھی ایک با ذوق ادبی شخصیت تھے اور شعر و شاعری و ادب سے منسلک رہنا انکا خاصا تھا مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1996 میں جب سید محسن نقوی کو لاہور کی علامہ اقبال مارکیٹ میں شہید کر دیا گیا تو رضوان خان کے والد گرامی نے شہید محسن نقوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے چند اشعار کچھ یوں لکھے کہ
ہوا جو قتل تو یاد آیا نام محسن کا
ہے معتبر سرمقتل مقام محسن کا
ملا ہےکیا تمہیں اے قاتلو قتل کرکے
لبوں پہ آج بھی زندہ ہے نام محسن کا
یزیدیت کا زمانہ نہ قتل کر دے تجھے
ابھی بھی وقت ہے در تو نہ تھام محسن کا
اسی طرح اکثر جب رضوان خان سے ملاقات ہوتی انکے روبر بھی محسن نقوی شہید کے مجموعہ کلام ہی ہوتے ایک مرتبہ انکی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تو رضوان خان محسن نقوی شہید کے تازہ مجموعہ کلام ” طلوع اشک” کا مطالعہ کر رہے تھے یوں گماں ہوا ہے کہ رضوان خان کو ادب و شاعری میں دلچسپی تھیآجکل تو معلوم نہیں دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا ان سے ملاقات ہوئی نہ کبھی رابطہ ہوا لیکن رضوان خان سے تعلق کی مہک ہمیشہ بےقرار کئے رکھتی ہے انہیں جب میڈیا پر دیکھتے ہیں یا کہیں کوئی تذکرہ سنتے ہیں تو یادیں تازہ ہو جاتی ہیں وہ ڈی جی خان سے ٹرانسفر ہونے کے بعد طویل عرصہ مختلف شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے رہےآجکل ڈی ایس پی کروڑ پکا میں تعینات ہیں نہایت دبنگ اور جہانباز قسم کے آفیسر ہیں گزشتہ روز ہمارے پیارے بھائی نفیس خان کاکڑ سے ملاقات ہوئی تو رضوان خان کا ذکر ہوا اور کچھ یادیں تازہ ہوگئیں اور یوں نفیس بھائی نے اصرار کیا کہ خان رضوان خان پر بھی آپ ضرور کوئی تحریر لکھیں تو میں نے کہا کہ کیوں نہیں رضوان خان سے ہمارا برسوں کا تعلق ہے انہوں نے ہمیشہ محبت و بھائی چارے کی روایات کو یوں عام کیا۔کہ وہ چمکتا ہے، مہکتا ہے اور پھولوں کے نگر آباد کرتا ہے خلوص و محبت کا نگہبان، خدمت انسانیت کا داعی جو ہمیشہ خوش رہتا ہے اور خوشیاں ہی بانٹنا اس کی عادت سی بن گئی اسکے انداز و بیاں اس کے لہجے کی معصومیت، اسکے کردار کی گواہی ہے دوستوں سے دوستی نبھانا اس کا کمال ہنر ہے ایسے نہیں کہ وہ خود ایسا ہے اس کے اندر ایک انسان ہے جو رضوان خان کو اکساتا ہے تربیت دیتا ہے وہ گواہی بن جاتا ہے یوں اپنی گواہی کی آگاہی کو عام کرنے میں وہ ہمہ تن وقت کوشاں رہتا ہے اور یوں ان سے ان کے خاندانی وسیلہ سے انسانیت کو فیض ملتا ہے جہاں وہ خود حبسِ میں کہیں تازہ ہوا کا جھونکا ہے وہاں اس کے والد بھی اندھیروں میں روشنی کا مہکتا نور ہیں ان کے والد کا علمی و ادبی کردار تاریخ کا سنہرا باب ہے اسی نسبت سے رضوان خان بھی ناقابل بیان حقیقت ہیں کہ ان کے کردار و خلوص اور محبت کا اگر تذکرہ ہوتا رہے تو ان سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کے لیے وہ کسی اعزاز سے کم نہیں وہ شخصیت ہیں ہواؤں میں خوشبو کی مہک کی مانند بڑے واضع ہیں۔ رضوان خان تاریخ کے افق پر سماجی اقدار ،رواداری ، محبت و خلوص کا طرف دار اور انسانی امن اور معاشرتی حسن کی ضمانت کے حرف آغاز کی طرح ہے وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے انتظار میں سانس لے رہا ہے وہ اپنی خواہشوں، کے ادھورے دائرے میں اپنی خراشوں کی نامکمل لکیروں اور جاگتی راتوں کی کروٹوں میں اپنا پیغام دے رہا ہے وہ جلتے سلگتے خیالوں کا سرمایہ ہے کہ جس کے کروٹ کروٹ جذبوں کی آنچ میں پگھل پگھل کر اندھیروں کے سینوں میں اتر اتر کر محنت و عزم کی تکریم لکھی ہے اس نے روح کے پاتال میں اتر کر اپنی تنہائی میں بکھری ہوئی دھوپ کو لمحہ بہ لمحہ تقسیم سے بچایا ورنہ وہ ،”خواب ،وہ نیندیں رضوان خان کو دوستوں سے دور، بے کسوں سے پرے اور افلاس سے بدحال ستم رسیدہ ناتواں لوگوں کی ناگواری کا سبب بنتیں- گو کہ پڑھنے والے قاری کے ہاں یہ خوبیاں کسی شاعر، ادیب، دانشور میں تو پائی جاتی ہیں مگر رضوان خان پر قاری کے لیے یہ حیران کن ہیں لیکن رضوان خان پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کی جس فکر سے آشنا ہے اس فکر کے پیش وہ نہ ختم ہونے والے جرائم کی سرکوبی کے لئے بھی کوشاں ہے وہ دوستوں کا سرمایہ و فخر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں اور پولیس فورس کے جوانوں کے لئے بھی لائق تحسین کردار ہیں .اللہ پاک ہر لمحہ انکو اور ان کے احباب و ملنے والوں اور دوستوں کو امن و سکون، صحت و سلامتی اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے —-آمین
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں