ہمارے گھر اور شہر اتنے گرم کیوں ہو گئے؟

جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہوئی گرمی کی ایک وجہ کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں ہماری ناکامی ہے۔ یہ درست ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے شہر اب 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہو رہے ہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ شہری منصوبہ بندی اور انتظام میں جو ہم آہنگی نظر آنی چاہیے وہ نظر نہیں آتی۔ دار الحکومت دہلی کا ماسٹر پلان 2041 تیار ہے جس میں بلیو گرین پالیسی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہاں بلیو کا مطلب پانی کے ذرائع اور فضلہ کا مناسب انتظام ہے۔ یعنی دیلی کے جغرافیہ میں آبی ذخائر کو بہتر بنانا اور کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا
ترقی یافتہ ممالک میں صرف پانچ سے دس فیصد کچرا دمینگ گراؤنڈ میں جاتا ہے جبکہ یہاں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ چونکہ کچرا کاربن کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سیوریج اور کوڑے کا انتظام آب و ہوا کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ماسٹر پلان میں گرین کا مطلب ہے گرین بیلٹ یا بریالی کا پھیلاؤ۔ اس کے تحت شہری جنگلات کو بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کا ایک تسلیم شدہ طریقہ ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی تک اس ماسٹر پلان کی اطلاع نہیں دی گئی
ماحول کو نظر انداز کرنے کا یہ واحد معاملہ نہیں ہے۔ کوپ 2021-26 کے اجلاس میں ہماری طرف سے کہا گیا کہ ہم 2070 تک کاربن کے صفر فیصد اخراج کے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں، جب کہ امریکہ اور یورپی یونین نے یہ ہدف سال 2050 تک حاصل کرنا ہے۔ اور چین نے 2060 تک ہدف کے حصول کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہو گا کہ کاربن کے اخراج کے معاملے میں چین امریکہ اور یورپی یونین کے بعد ہندوستان کا نمبر ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے شہری منصوبہ بندی میں ماحولیات پر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں جب سے یہ مسئلہ ظہور پذیر ہوا ہے، اس حوالے سے مختلف اسکیمیں بنائی گئیں لیکن جتني احتياط منصوبے بنانے میں کی گئی، شاید اتنی ہی سستی ان کے نفاذ میں بھی برتی گئی انتظام اور منصوبہ بندی میں ہم آہنگی کی اس کمی کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اسکیموں کا صحیح انتظام نہ کیا جائے تو ہدف حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں، جہاں گرین بیلٹ کا فقدان ہے، جہاں پارکس نہیں ہیں یا جہاں جنگلات کو بڑھاوا نہیں دیا گیا وہاں گرمی زیادہ شدید ہوتی ہے۔ شہروں میں گرین ایریاز مسلسل سکڑ رہے ہیں، جن میں اضافہ کے لیے منصوبہ بند کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ 2015 میں تلنگانہ نے ایسی ایک کامیاب کوشش شروع کی تھی۔ بریتا برم نامی اس اسکیم کے ذریعے ریاست کے سبزے کے رقبہ کو 24 فیصد سے بڑھا کر 33 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اور اب تک کئی دیگر کوششوں کے علاوہ 75 سے زائد شہروں میں 109 سے زیادہ پارکس تیار کیے جا چکے ہیں۔ شہروں میں ہزاروں ہیکٹر زرعی اراضی ختم ہو چکی ہے۔ اس سکیم میں درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال کے ليے بھي مراعات دی گئی ہیں۔
اسی طرح درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور آلودہ پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے انتظامات بھی ضروری ہیں۔ لیکن یہاں بھی پانی کی فراہمی میں کافی بدانتظامی ہے۔ پانی کا بحران ہے، تقریباً 30-40 فیصد پانی نلکوں کے ذریعے گھروں تک پہنچانے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس رساو کو روک سکتے ہیں تو قدرتی طور پر پانی کی دستیابی بڑھ جائے گی۔ لیکن اس کے لیے پانی کے پائپوں کی باقاعدگی سے دیکھ بھال ضروری ہے، جس میں ہمارا نظام ناکام ہے۔
یہ محض ایک تاثر ہے کہ بڑے شہروں میں کثیر المنزلہ عمارتیں گرمی کو دعوت دیتی ہیں۔ چین، کوریا اور بانگ کانگ نے اسی طرح کے اقدامات کے ذریعے ترقی کی راہیں تلاش کی ہیں۔ در حقیقت یہ کمی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر میں نہیں بلکہ انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ملک میں شہری تعمیراتی کام کے حصے کے طور پر عمارتیں تو تعمیر کی جاتی ہیں لیکن ضروری گرین بیلٹ تیار نہیں کی جاتی۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر پودوں کی قربانی دی جاتی ہے لیکن عام طور پر شہری جنگلات کو بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی آب تو کئی ممالک میں گرین بلڈنگز بھی بننا شروع ہو گئی ہیں، جن کے نیچے بننے والی عمارتوں میں گرمی کو برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، لیکن یہاں دہلی سے متصل سائبر سٹی گروگرام میں اس نئی ٹیکنالوجی پر شاید ایک بی عمارت بنائی ہو، ایسا لگتا ہے جیسے بلڈرز نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔
پانی کی اکائیوں کے حوالے سے بھی ہمارا رویہ بدستور ہے۔ گروگرام یا بنگلورو جیسے بڑے شہروں میں بھی پانی کی اکائیوں کو بڑھانے سے کہیں زیادہ ہم نے پانی کے قدرتی بہاؤ میں خلل ڈالا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں کہ کس طرح دریا کے کنارے یا زیر آب علاقوں کو تعمیراتی منصوبوں کا حصہ بنایا گیا، جھیلیں تباہ کی گئیں، تالاب بھرے گئے اور تعمیراتی کاموں کے لیے سبزہ زاروں کی قربانی دی گئی۔ جب تک ان بے ضابطگیوں کو دور کرنے کی کوششیں نہیں کی جائے گی ہمارے شہر بدستور سڑتے رہیں گے۔
کچرے کو ٹھکانے لگانا، پانی کے ذرائع کی توسیع، بریالی کو فروغ، گرین بلڈنگ پر زور، آسان ٹرانسپورٹ سسٹم، پانی کا انتظام وغیرہ وہ شعبے ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے ماحول میں منصوبہ بندی اور انتظام کی تیز رفتاری ضروری ہے۔ راستہ یہاں سے نکلے گا۔ اب جو شہروں کی توسیع ہو رہی ہے، اس میں ان پیرامیٹرز کا کسی حد تک خیال رکھا جاتا ہے، لیکن ان علاقوں کے لیے خصوصی پالیسیاں بنانا ہوں گی جہاں پہلے ہی بے ترتیب عمارتیں بن چکی ہیں۔ سمارٹ سٹی کے تحت شہروں کی بہتری کے لیے کچھ منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اب اس بات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے کہ سمارٹ سٹیز میں کیا کام ہوا ہے۔ ہمیں ان کاموں کو آگے لیکر بڑھانا ہے جو نئی ترقی کو ماحول دوست بنائیں گے۔ اب جبکہ یہ عالمگیریت کا دور ہے، کوئی نیا تصور کسی ایک دائرے تک محدود نہیں رہ سکتا۔ ہم دوسرے ممالک سے سبق سیکھ کر ماحول دوست شهر بھی تیار کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمارے لیے صفر کاربن کے اخراج کا ہدف حاصل کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔