تاہم اس برس کے مون سون میں پاکستان کے محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ بلوچستان کو 381 فیصد زیادہ بارشوں کا سامنا ہوا اور ہو رہا ہے جس سے اچانک سیلابی ریلوں اور انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ہو چکا مذید بھی صورت حال گھمبیر ہےموجودہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں جس میں تاحال ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے۔ اس سے ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ وقت کے ساتھ لگایا جائے گا تاہم 2010 کا سیلاب جسے 2022 کے سیلاب کے مقابلے میں کم شدت کا تصور کیا جاتا ہے اس سے تقریباً 33 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ انتہائی نوعیت کی موسمیاتی آفات کی مقدار بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی قیمت میں فقط اضافہ ہی ہوگا۔ جہاں موسمی آفات سے ہونے والے معاشی نقصانات کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے، وہیں موسمی آفات معاشرتی و سیاسی ہم آہنگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ 2022 کے سیلابوں نے پوری کی پوری آبادیوں کو بے گھر کر دیا تھا، ان کے ذریعہ معاش اور آمدن کے مواقع ختم کر دیے، اور ہجرت اور شہروں کی جانب رخ کرنے کا عمل جو پہلے ہی انتہائی بلند سطح پر تھا، اس میں اضافہ کر دیا۔ متاثرین کے لیے جو امدادی کاروائیاں کی گئیں وہ جامع نہ تھیں اور متاثرہ آبادیاں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ایک ایسی آفت جس کے لیے وہ ذمہ دار بھی نہیں تھے، اس کے بعد ان کی مناسب امداد نہیں کی گئی ۔ ایسی صورتحال میں ریاست کی حیثیت یا حکام پر ان کے یقین پر بدترین اثرات رونما ہونے ہیں اور بڑے پیمانے پر بدامنی کے خطرات بڑھے۔ کسی بھی شدید نوعیت کی موسمیاتی آفت کے بعد انفرادی سطح پر لوگوں کا احساسِ خودی مسلسل متغیر پذیر ہی رہا۔ نسل در نسل چلے آتے گھرانوں کی تباہی، اپنے ملک کے اندر ہی ہجرت اور خیموں کی شکل میں عارضی و ناقص ٹھکانے شناخت کی بنیاد پر بڑے چیلنجز کا موجب بنے اور متاثرہ آبادیوں کے درمیان معاشرتی معاشی عدم تحفظ کا احساس بیدار نہ ہو سکا۔ ایسے اثرات سلامتی کے معاشرتی و سیاسی شعبوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور قومی یکجہتی کے احساس کو بے وقعت کرتے ہیں۔ مزید برآں انتہائی نوعیت کے موسمی حادثات مختصرالمدتی امدادی سرگرمیوں اور ریاستی وسائل پر طویل مدت کے لیے بوجھ کا نام ہے۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوئی کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہوئے یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن کر رہ گئے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھا۔ بچے، خاص کر چھوٹی بچیاں انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے سکول سے محروم ہوئیں ۔ صاف پانی اور غذا تک لوگوں کی رسائی کا فقدان بڑھا، بیماریوں کی شرح میں اضافہ اور معیار زندگی میں کمی واقع ہوئی اور یہ تمام کے تمام کثیر الشعبہ جاتی مسائل ہیں جن کا حل حکمت و تدبر سے کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں حکمتِ و تدبر کا فقدان رہا افواج پاکستان سلامتی کا واحد ادارہ ہے جب اس طرح کی صورتحال جنم لیتی ہے تو فوج کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جب سلامتی کے اس ادارے کی ذمہ داری بڑھتی ہے تو بالواسطہ فوج کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ادارہ برائے انسانی مدد و قدرتی آفات (ایچ اے ڈی آر) کے تحت ایک متحرک اور جامع کردار ادا کیا ہے۔ فوج نے بلوچستان کے ڈسٹرکٹ لسبیلہ میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں اعلیٰ سطحی افسران کھوئے ہیں جس میں 12 کور کے کمانڈر (جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل تھے) شامل ہیں۔ آئی پی سی سی کی رپورٹس کے مطابق قدرتی آفات میں اضافے کے اندازوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایچ اے ڈی آر کی ضرورت میں وقت کے ساتھ ساتھ محض اضافہ ہوگا۔ ایچ اے ڈی آر کے لیے فوجی وسائل میں اضافے کے سبب دیگر بحرانوں میں اس کے ردعمل میں کمی آئے گی اور فوج کے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے کردار میں رکاوٹ آئے گی۔ مستقبل کے لیے لائحہ عمل سے متعلق ملک میں شدید نوعیت کی موسمی آفات سے مختلف شعبہ جات پر پڑنے والے منفی اثرات کے باعث پاکستان کی جامع قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ اب یہ محض معاشی سلامتی بمقابلہ روایتی سلامتی نہیں رہا۔ قومی سلامتی ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قومی طاقت تمام عناصر اور وسائل پر مبنی ہوتی ہے جو ریاست کو اپنے مفادات کے حصول کے قابل بناتے ہیں۔ لہذا یہ تمام عناصر، وسائل اور شعبہ جات اس کی سلامتی میں حصے دار ہیں۔ گویا کثیرالشعبہ جاتی خطروں کی اس بساط سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کو اس جامع نگاہ سے دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس میں تمام شعبہ جات پر یکساں توجہ مرکوز ہو جبکہ موسمیاتی سلامتی کو اس کی شدت اور فوری نوعیت کی وجہ سے ترجیح دی جائے۔ این ایس پی نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر گفت و شنید شروع کی لیکن قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کے سبب موسمیاتی شعبہ پر اس کی توجہ ناکافی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی سازوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات پر محدود توجہ ہے جیسا کہ وہ دیگر شعبہ جات کو ان تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا تخمینہ لگائے بغیر صرف غذا، پانی اور توانائی کے شعبے پر اس کے اثرات کی بنا پر توجہ دیتے ہیں نتیجتاً موسمیاتی تبدیلی کو ریاست کی بقاء کو لاحق خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ تاہم جیسا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں ایسے میں ایسی ٹھوس پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہوگیا ہے کہ جو موسمیاتی تبدیلیوں کے کثیرالشعبہ جاتی اثرات سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کر سکیں۔ اور آنے والے وقتوں میں پاکستان کے اس زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر توجہ دیں۔ جس سے وہ سیاسی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی اقدامات کو دیکھ سکیں۔ موسمیاتی بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ایک بین الضابطہ نقطہ نگاہ ترتیب دینا ناگزیر ہے۔ عملی شکل میں ڈھالے جانے پر یہ متعلقین سے روابط قائم کرنے، عملی احتساب کے لائحہ عمل یا حکومتی سرگرمیوں میں موسمیاتی اقدامات کی شمولیت کی شکل اختیار کر سکیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تیاری سے آگے بڑھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لیے کام ہی تعمیری نتائج کی ضمانت ہوگا۔ پالیسیوں کے نفاذ میں شعبہ جاتی تخصیص ہونی چاہیئے کیونکہ معاشرتی و سیاسی شعبہ جات میں اٹھائے جانے والے موسمیاتی اقدامات معاشی یا دفاعی شعبوں کی ضروریات سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ این ایس پی کے تشکیل کردہ ماڈل پر عمل کرے اور سلامتی کے تمام شعبوں میں سرکاری و نجی متعلقین سے رابطے کرے تاکہ ملک کے لیے ہر شعبے کو لاحق خطرات کی علیحدہ علیحدہ پروفائل تیار کی جا سکے۔ اس کے بعد ہی نفاذ کے پس پشت تمام شعبہ جات کے متعلقین ہوں گے اور یوں انکی موسمیاتی نزاکتوں اور موسم سے موافقت کے فروغ پر توجہ ہوگی۔ حالیہ طوفانی بارشیں اور بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ان پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس طرح سے ملک بھر میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے بہت نقصانات ہوچکے ہیں، اگر انکی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو مزید نقصانات کا بھی اندیشہ ہے۔ تیز آندھیوں، طوفانی بارشوں اور ژالہ باری کی وجہ سے ملک کے کئی بڑے شہروں سمیت دیہاتوں میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے۔ گلی محلے جوہڑ کا منظر پیش کر رہے ہیں،
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں