جولائی1987کو دنیا کی آبادی 5ارب تک پہنچی تویہ مسَلہ توجہ کا مرکز بنا اور اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی گورننگ کونسل کی طرف سے 1989 میں ہر سال 11جولائی کو آبادی کا عالمی دن منانے کی منظوری دی گئی ۔ اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد معاشرے میں تولیدی صحت کے مسائل سے آگہی مہیا کرنا ہے ۔ چونکہ 10 سے 24 سال کے نوجوان دنیا کی آبادی کے ایک چو تھائی حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے درمیان تولیدی مسائل کی آگہی نہا یت ضروری ہے ۔ علاوہ ازیں آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے آبادی کا عالمی دن ہر سال منایا جا تا ہے ۔ 1951ء میں پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 3کروڑ35لاکھ تھی ۔ 1965ء میں یہ آبادی بڑھ کر 5کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ۔ یعنی چند سالوں میں یہ آبادی تقریباًدوگنا ہو گئی ۔ اس صورت حال میں ملکی وسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1965ء میں محکمہ بہبودِ آبادی قائم کر دیا گیا ۔ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان چھٹے نمبر پر ہے ۔ عالمی ماہرین کے مطابق آبادی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ جس تیزی سے وسائل مہیا نہیں ہو رہے اور دنیا بھر کے بے شمار مسائل آبادی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان میں خوراک کی فراہمی ،علاج،رہائش،تعلیم اور دیگر بنیادی اشیاء جو بنی نو انسان کیلئے ضروری ہیں ۔ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مختلف ممالک پر منفی اثرات کے بارے میں اقوامِ متحدہ کو باور کرانے ،آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنے،ان مسائل کی وجہ سے علاقائی ، ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہی دینے اور دنیا بھر میں بڑھتی آبادی کی روک تھام کے لئے ہر سال گیارہ جولائی کو اس دن کی مناسبت سے سیمینارز، سیمپوزیم اور بحث و مباحثے وغیرہ جیسے پروگرامزکا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ عوام میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں شعور بیدار کر نے کے ساتھ انہیں اس کے روک تھام کے حوالے سے معلومات بھی بہم پہنچ سکیں ۔ اگر خاطر خواہ انتظامات نہ ہوں توآبادی میں اضافہ دیگر مسائل کے ساتھ بے روز گاری کو جنم دیتا ہے جس سے خوراک کی جنگ ہوتی ہے اوربے روزگاری میں جب جائز طریقے سے خوراک نہ ملے تو پھر چوری چکاری ،لوٹ کھسوٹ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں سے خوراک کی ضرورت پوری کرنے کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے اور وسائل کی کمی کے باعث مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت تین کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ جبکہ چھ کروڑ سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سمیت تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ ماہرین کے مطابق آبادی میں ہونے والا یہ اضافہ مسائل کے حل میں بھی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے ۔ اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں حالات مزید سنگین ہو جائیں گے ۔ پاکستان کے شہری علاقے آبادی کے سخت دباوَ کا شکار ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ لاہور ،کراچی و دیگرکئی شہروں کی گنجان آبادی لوگوں کا جنگل یا شہد کی مکھی کا چھتہ محسوس ہوتی ہے حالانکہ فی الوقت شہروں میں آبادی کا ایک تہائی حصہ مقیم ہے ماہرین کے مطابق پاکستان میں آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور دیہاتوں کو چھوڑ کر بڑے شہروں میں رہائش اختیار کرنے کا رجحان پورے ساوَتھ ایشیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہے ۔ شہری علاقوں میں نقل مکانی میں تیزی کی وجوہات بہتر روز گار ، سنہری مستقبل، بہتر طبی سہولیات اور جدید تعلیم ہیں ۔ لمحہَ فکریہ ہے کہ ملک کے شہر جو اس وقت بھی توانائی کے بحران کا شکار ہیں آبادی کے بڑھ جانے کے بعد اس کی صورت حال کیا ہو گی ۔ ٹریفک سے بھری ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کے زیادہ کرائے شہروں میں رہنے والے غریبوں کی دسترس سے اب بھی باہر ہیں بعد میں صورتحال اور بھی گمبھیر ہو جائے گی ۔ ملک کے کچھ علاقوں میں بد امنی جیسی صورتحال بھی مسائل میں اضافے کا سبب ہے شہری آبادی کو صاف پانی ،توانائی، ہاوَسنگ ودیگر سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہی اینٹوں کے بھٹوں ،ورکشاپوں ، فیکٹریوں ، ہوٹلوں اور کھیتوں وغیرہ میں تعلیم سے محروم سارا سارا دن کام کرتے بچے جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔ خصوصاً دیہاتوں میں دس سال سے بڑی عمر کی بچیاں کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں جبکہ اس عمر میں ان کا تعلیمی اداروں میں ہونا ضروری ہے کیوں کہ فلاسفر کے قول کے مطابق پڑھی لکھی مائیں ہی پڑھے لکھے معاشرے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ۔ آج بھی منصوبہ بندی کے حوالے سے کی جانے والی ہر کوشش صرف بچوں کی کم تعداد کے گرد گھومتی ہے گویا آبادی کی بہتری کے ہر عمل کوفیملی پلاننگ کا نام دیا جاتا ہے ۔ فیملی پلاننگ کو ہم نے اپنے معاشرے، روایات، اقدار اور انسانی زندگی سے کوئی الگ تھلگ ڈراوَنی شئے بنادیا ہے۔حالانکہ اس کا تعلق ہماری صحت،،تعلیم،طبّی سہولتوں اور خوشحالی سے جڑتا ہے۔ آ ج بھی اس مسئلےے پرلوگ بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں ۔ حکومت فیملی پلاننگ پروگرام کو وسعت دے کر مربوط کرے ۔ فیملی پلاننگ ویلفیئرکو مناسب فنڈ اور بجٹ فراہم کرے 70فیصد آبادی دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے ۔ اس لئے دیہی علاقوں میں لوگوں کو قائل کرنے کیلئے مہم چلائی جائے جس میں سول سوسائٹی،این جی اوز،اہلِ علاقہ اورخصوصاً علماء کرام ومذہبی سکالرز کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ ماں اور بچے کی صحت کے ضمن میں کلینکس کی تعداد بڑھائی جائے ۔ ورلڈ بنک کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی کو موجودہ تناسب سے کم نہ کیا گیا تو اگلے 30 سالوں میں کم ترین آمدنی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا ۔جبکہ پاکستانی ماہرین کے مطابق ایک ایسے دور میں جب دنیا سائنسی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھا رہی ہے اورپاکستانی عوام آج بھی مانع حمل طریقہ کار کے استعمال سے متعلق بنیادی تصور کو سمجھ نہیں پا رہی ہے ۔ اگر انسان( مرد وزن) موجود نہ ہو ں تو معاشرہ نہیں کہلا سکتا ۔ معاشرے کا سنگار مرد اور عورت ہیں ۔ ایک چار دیواری کے اندر سے لیکر وسیع وعریض ملکی سرحد تک مرد و عورت دونوں سے یہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ معاشرے کی اصلاح ، بہتری اور ترقی میں دونوں کا کردار اہم ہے اورکردار کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر فرد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کیلئے سوچنا چاہیئے ۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ہمیں نسل بڑھانے کیلئے صحت کے اصولوں پر پابندی کرنا ہو گی ۔ نسل کو صحت مند پیدا کرنے سے قبل ماں کی صحت برقرار رکھنے کیلئے انتظامات کرنا ہوں گے اوریہ حقیقت ہے کہ نکاح کا مقصد بھی صرف اولاد پیداکرنا نہیں بلکہ نسل ِانسانی افزائش میں ایسا انداز پیدا کرنا مقصود ہے کہ اولاد کی اعلیٰ تربیت ہوجو انسانیت کیلئے باعثِ فخر ہو ۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہتر رزق عطا فرمانے والی ذات ہے مگر مذہب اسلام بھی ہمیں قناعت اور توازن کا درس دیتا ہے ۔ ہمارے رہبر و رہنما اور نبی َمکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میانہ روی اختیار کی وہ تنگ دست نہ ہوا ۔ یہ توازن خالصتاً معاشرتی اور معاشی زندگی کی گزارنے کیلئے ہے ۔