عوام کو حقوق دلانے میں سول سوسائٹی کا کردار ۔!!!

بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں سول سوسائٹی کے کردار پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سول سوسائیٹی کی اصطلاح آخر ہے کیا۔؟ کیونکہ بہت سے لوگ اس اصطلاح سے واقف ہی نہیں ہیں اور نہ ہیہم میں سے اکثر لوگ سول سوسائٹی کے معاشرے میں کردار اور اہمیت سے  مناسب طور پر آگاہ ہیں۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں عام طور پر سِول سوسائٹی کے بارے میں اکثر غلط فہمی پائی جاتی ہے۔سول سوسائٹی معاشرے کا وہ باشعور طبقہ ہے جو سرکاری ریاستی سیاسی اور مذہبی الغرض تمام تر وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کام کرتا ہے اور سماجی و معاشرتی معاملات کو زیر بحث لا کر اس پہ اپنی راۓ دیتے ہیں۔یہ لوگ غیر جانبدار ہوکر معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
سول سوسائٹی میں ماہرین تعلیم سماجی راہنماء دانشور و ادیب حضرات کے ساتھ ساتھ شعراء و فنکار ماہرین قانون کھلاڑی انجینئرز۔ ڈاکٹرز ۔ماہر فن اساتذہ اور امدادی و اصلاحی تنظیموں کے کارکنان شامل ہوتے ہیں۔ کمیونٹی ورکرز ۔محلّے کے بزرگ بڑے بوڑھے متحرک نوجوان طلبہ و طالبات انسانی حقوق کے ماہرین کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکن اور فلاحی تنظیموں کے ارکان المختصر ہر شعبہ زندگی سے تعلّق رکھنے والے وہ افراد جو باشعور اور باضمیر ہونے کے ساتھ اس بات کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں کہ وقت پڑنے پر وہ ہر چیلنج سے نبرد آزماء ہو سکتے ہیں وہ سول سوسائٹی میں شامل ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی ِفکر۔ آزادیِ اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ یہ سب جب باہم مل کر کام کرتے ہیں تو انہیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔“بعض لوگ سول سوسائٹی کے اراکین کو لبرلز کے ساتھ ملا کر انہیں معاشرے کے دوسرے طبقات کے سامنے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ سِول سوسائٹی فیشن ایبل اور امیر لوگوں کا کوئی پرائیویٹ کلب ہے جہاں دولت و ثروت۔ عیش و آرام اور رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کی نمائش ہوتی ہے۔
سوِل سوسائٹی کی بنیاد عام شہری ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں اور ہر مہذّب اور ترقی یافتہ معاشرے میں سول سوسائٹی کا باقاعدہ وجود اور ایک جاندار کردار ہوتا ہے۔سول سوسائٹی کے اراکین لوگوں کو انکے انسانی حقوق دلانے کی خاطر معاشرتی مسائل پر وقتا“فوقتا“ اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔یہ لوگ مصلِحتوں کی پرواہ کیئے بغیر معاشرتی مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان مسائل پر اپنی توانا آواز بھی بلند کرتے ہیں، تاکہ انسانی حقوق کی پامالی اور عدم دستیابی پر انسانی ضمیر کو جھنجوڑا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ سول سوسائٹی ایسے باشعور افراد گروپس اور آرگنائزیشنز پر مشتمل ہوتی ہے جو ہر قسم کی وابستگیوں اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر معاشرے کے اجتماعی مفادات کے تحفّظ کے لئے کام کرتی ہے۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں سول سوسائٹی پارلیمنٹ سے باہر بڑی طاقتور با اثر اور موثّر غیر سیاسی قوت سمجھی جاتی ہے جو ہر غیر قانونی غیر اخلاقی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہر اقدام کے خلاف ہر سطح پر اپنی بھرپور آواز بلند کرتی ہے۔
دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال کے بارے میں شہری امور کے ایک ماہر کہتے ہیں کہ فی زمانہ دیہاتوں کی نسبت شہروں میں رہنے والے لوگ زیادہ مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ مسائل اس قدر گھمبیر اور پیچیدہ ہیں کہ اب وہ ایک ناسور بن چکے ہیں کیونکہ دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے شہر بہت گنجان آباد ہو چکے ہیں۔ انکے بقول جنوبی ایشیاء میں تو یہ صورت حال اور بھی زیادہ خراب دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس خطے کے اکثر ممالک میں مقامی حکومتوں کے نظام کا نام ہی موجود نہیں ہے جو کہ شہروں کی ترقی کیلئے ایک بنیاد تصور کیا جاتا ہے ۔ گویا اس وقت پوری دنیا میں انسانی حقوق شدید خطرے میں ہیں۔انہیں وہ حق بلکل بھی حاصل نہیں ہے جس کے وہ بطور انسان مستحق ہیں۔کوئی بھی انسان چاہے وہ عربی ہو یا عجمی۔ گورا ہو یا کالا ہو۔کوئی بھی زبان بولتا ہو۔کسی بھی نسل کا ہو۔ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی علاقے کا رہنے والا ہو اسے بغیر کسی تعصب اور امتیاز کے یہ سب حقوق حاصل ہیں۔اسی طرح کائنات میں خداوند تعالی! نے جتنے بھی وسائل پیدا کئے ہیں ان پر ہر انسان کا حق ہے کیونکہ اسے یہ حق دینے والی وہی ذات ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب انسان تحفظ جان و مال اور عزت و آبرو اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں بلاء کسی امتیاز کے برابر ہیں تو پھر انہیں یہ حقوق دینے میں روکاوٹ کیوں ڈالی جاتی ہے۔ بطور خاص ہمارے ملک پاکستان میں تو انسانی حقوق بلکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔جہاں انسانوں کو انکے بنیادی حقوق صحت تعلیم اور بنیادی ضروریات زندگی ہی میسر نہ ہوں وہاں انسانی حقوق کی فراہمی کا تصور ہی محال ہے۔ہر مہذب معاشرے میں ان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ہمیشہ ریاست کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔اسی بناء پر ریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس لیتی ہے تاکہ وہ انہیں یہ سہولیات دے سکے لیکن پاکستان میں یہ صورت حال بڑی پریشان کن اور غیر تسلی بخش ہے۔حکومت اپنے ہر شہری سے بیسیوں قسم کے ٹیکس تو لیتی ہے لیکن انہیں انکے ان آئینی و قانونی حقوق سے دیدہ و دانستہ طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔حالانکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے۔وہ بنیادی حقوق جو انہیں ریاست کا دستور دیتا ہے۔ان بنیای حقوق میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا حق تعلیم کی فراہمی ہے۔اسکے بعد علاج خوراک اور پھر مناسب رہائش کا بندوبست ہے۔جو ریاست یہ بنیادی سہولیات عوام کو فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اسے یقینی طور پر ایک مثالی اور کامیاب ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسکے برعکس جو ریاستیں اپنی عوام کو ان بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکام رہتی ہیں تو وہ اس بات کی حقدار نہیں رہتی ہیں کہ وہ شہریوں سے ان خدمات کی فراہمی کیلئے ٹیکس اکٹھا کریں۔ اس وقت انسانی حقوق کا دفاع کرنے اور اس پہ مناسب چیک اور نظر رکھنے والی تنظیمیں صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد اور سول سوسائیٹی کے نمائیندے سب مل کر اظہار راۓ کی آزادی اور پر امن احتجاج و اجتماع کے حق کو استعمال کرنا چایتے ہیں لیکن انہیں اس ضمن میں بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں کیونکہ خطے کے کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں انکے ظالم و جابر حکمران انہیں اس حق کے استعمال کرنے سے روکتے ہیں اور انکی راہوں میں روکاوٹیں کھڑی کرتے اور روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کی ایسی کاروائیوں کو بلا روک ٹوک جاری رہنے دیا جائے تو انسانی حقوق کے متاثرین کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
وطن عزیز میں اب بنیادی انسانی ضرورت بجلی ہی کو دیکھ لیں جس کے بلوں پر حکومت ایک ہی قسم کے ٹیکس بار بار لگا کر عوام کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسے جینے کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔وہ کہاں تک ان ظالمانہ ٹیکسز کا شکار ہو سکتے ہیں۔؟کیونکہ ہر ایک جابرانہ اور قاہرانہ عمل کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔یہ کیسا ظلم ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔؟غریب لوگوں نے اپنی جمع پونجی ان بجلی کے بلوں کو ادا کرنے میں جھونک دی۔کچھ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے زیور تک بیچ دیئے اس امید پر کہ شائد اگلے مہینے کچھ ریلیف مل جاۓ لیکن اگلے مہینے پھر وہی ٹینشن۔جب بل کی ادائیگی کی خاطر اس کے پاس بیچنے کیلئے کوئی چیز ہی نہیں بچے گی تو پھر وہ کیا کریں گے۔؟ خودکشی جی ہاں ۔! ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ زیادہ بل آنے ہر دو بھائیوں کے درمیان آپس میں تکرار ہوئی اور یہ تکرار اتنی بڑھی کہ طیش میں آکر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو قتل کر دیا۔
ایسے میں سول سوسائیٹی کو لازمی آگے آنا چاہیئے اور ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں