کوڑا ٹیکس! عوام کی حالت زار پر رحم کریں

ڈیرہ غازی خان پنجاب کابینہ سے منظوری کے بعد پنجاب کی حکومت نے پنجاب کے عوام پر کورا ٹیکس عائد کر دیا ہے اس کی تفصیل آگے چل کر آپ کے روبر ہوگی کہ کس طرح اور کتنے مرلے کے مکان، کاروبار پر کتنا ٹیکس وصول کی جائے گا دیہی علاقوں میں کتنا ہوگا اور شہری علاقوں میں کتنا ہوگا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب میں حکومت نے جو کوڑا ٹیکس لگایا ہے اس فیصلے کو حماقت کہیں یا ہنسی مذاق میں اڑا دیں البتہ پتلی تماشے کی مانِند کٹھ پتلی حکومتوں کے فیصلے بھی اس دھاگے کی مانند ہی دکھائی دیتے ہیں جیسے کوئی پتلی والا پتلی کو نچاتا ہے بعض اوقات دھاگہ ٹوٹ جائے تو پتلی کا بھرم اور نچانے والے کی کاریگری بھی بےنقاب ہو جاتی ہے پنجاب حکومت کا بھی یہی حال ہے کہ دھاگے پر اژدھا قسم کی پتلیوں کو نچایا جائے گا تو لامحالہ دھماکے نے ٹوٹ ہی جانا ہے یوں سمجھ لیں کہ جب ذلت و رسوائی کے اسباب پیدا ہوتے ہیں تو پھر اسی طرح کے احمقانہ اور عوام دشمن فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن عوام طاقت ور پتلے ہیں یہ حکومت کے ایسے تماشوں سے ٹوٹ کر گرنے والے نہیں بلکہ ٹوٹ کر جو پتلیاں گر جائیں تو عوام پھر ان کا حشر نشر کر دیتی ہیں لہذا یہ کوڑا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں بلکہ اس سے عوام میں نفرت بڑھے گی۔بےشک بھی حکومت نے ٹیکس عائد کر دیا ہے لیکن عوام قعطا نہیں دیں گے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب عوام ہر قسم کے ظالمانہ و جابرانہ ٹیکسز کے خلاف سراپا احتجاج ہے دھرنے، لانگ مارچ اور قومی و بین الصوبائی شاہراہوں کے بند کرنے کی بازگشت ہو رہی ہے تو پنجاب حکومت نے اس سب کی پرواہ کرتے ہوئے عوام پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی تیاریاں کر لی ہیں یہ ایک نئی طرز کی انارکی و افراتفری ہے اور سمجھ نہیں آتا کہ ایسی احمقانہ تجاویز دیتا کون ہے ؟ خیر دینے والے کی عقل پر تو پتھر پڑ گئے ہونگے لیکن جو لوگ اس کو منظور کرکے نافذ کرنے کی منظوری دے چکے انکی عقل بھی لگتا ہے گھاس چرنے گئی ہوگی آجکل بجلی گیس کے بلوں نے عوام کا بھرکس نکال رکھا ہے لوگوں خود کشیاں کر رہے ہیں آپس میں ایک دوسرے کا قتل کیا جا رہا لوگ جب اپنی زندگی کی بازی ہار رہے ہیں تو پنجاب حکومت کو کوڑا ٹیکس لگانے کی پڑی ہے ویسے یہ کوئی عوامی فیصلہ نہیں اس پر قائد مسلم لیگ میاں محمد نوازشریف اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو نوٹس لینا چاہیے ایسے فیصلوں سے پارٹی کو نقصان ہوگا اس لئے تدبر سے غور کیاجائے اور کوڑا ٹیکس کو واپس لیا جائے اور اس طرح کے نت نئے تجربوں سے گریز کیا جائے کیونکہ عوام تو پہلے ہی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بے تحاشہ ٹیکسوں اور بجلی و گیس کے بلوں نے عوام کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔حکمران طبقات ایک تسلسل کے ساتھ عوام پر ظلم در ظلم کئے جا رہے ہیں لوگوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ غالبا وہ بھی اب جو نہیں بچا اس کو بھی سویپ کرنے کی بےہودہ جسارت ہو رہی ہے ائے روز نت نئے حربے استعمال کرنے سے نظام میں الجھاؤ پیدا ہوگا دشمن طاقتیں ایسے حربوں سے فائدہ اٹھانے کی طاق لگائے بیٹھیں ہیں تو حکومت اور وہ بھی عوامی حقوق کی علمبردار حکومت کو شاید اس بات سے قطعا کوئی غرض نہیں کہ اب عوام مزید ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتی ہے یا نہیں غور کریں تو عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پر بے جا بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے کے بعد عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہی نہیں بلکہ ہت مشکل اور امر محال بن چکا ہے تو ان حالات میں جہاں عوام شدید کوفت میں مبتلا ہوں تو پنجاب کی حکومت کا عوام پر 5 ہزار روپے تک ماہانہ ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ نہایت ظلم اور عوام دشمنی کی انتہا ہے حالانکہ کہ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں کمی لانے کے اقدامات ناگزیر تھے لیکن مراعات یافتہ طبقے کو نکیل ڈالنے کی طرف حکومتوں کا خیال ہی نہیں جاتا بیوروکریسی کریسی جرنل ججز کو جس طرح کی مراعات پاکستان میں حاصل ہیں انکی میں رتی بھر بھی کمی لانے کی بجائے اضافہ ہی کیا جا رہا ہے کوڑا ٹیکس بھی مافیاز کو نوازنے کا ہی گھناؤنا عمل ہے صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے جبکہ پنجاب کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے صوبے میں کوڑا ٹیکس لگانے کو فائنل کر دیا ہے گزشتہ روز صوبائی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ڈیویلپمنٹ کا اجلاس ہوا جس میں کوڑا ٹیکس لگانے کی منظوری دی گئی کابینہ کی منظوری کے بعد کوڑا ٹیکس دیہی اور شہری علاقوں کے گھروں اور کاروباری مقامات پر لگائے جانے کے بعد نافذ عمل ہوچکا ہے پنجاب کے 36 اضلاع کی 110 تحصیلوں سے کوڑا ٹیکس وصول کرنے کی تیاریاں مکمل ہیںیوں دیہی علاقوں میں پانچ مرلے کے گھر پر 200 روپے 10 مرلے سے ایک کنال کے گھر پر 400 روپے، دیہات میں چھوٹے کاروبار کی دکانوں پر 300 روپے درمیانے درجے کے کاروبار پر 700 روپے جبکہ بڑے کاروبار پر ایک ہزار روپے ماہانہ ٹیکس لگایا جائے گا ادھر شہری ابادی میں پانچ مرحلے کے گھر پر 300 روپے، 10 مرلے سے ایک کنال کے گھر پر 500 سے 2ہزار روپے اور ایک کنال سے بڑے گھر پر پانچ ہزار روپے ماہانہ ٹیکس لگایا جائے گا اسی طرح شہروں میں چھوٹے کاروبار پر 500 روپے درمیان پر ایک ہزار روپے جبکہ بڑے کاروبار پر تین ہزار روپے ماہانہ پورا ٹیکس لگایا جائے گا مختلف رپورٹس کے مطابق صفائی نظام آؤٹ سورس کرنے سے ٹھیکدار کوڑا ٹیکس اکٹھا کریں گے حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں اور مراعات میں معمولی سی کمی بھی گوارا نہیں لیکن عوام پر آئے روز نت نئے ٹیکس لگانے کے تجربات کیے جا رہے ہیں حالانکہ صفائی اور کوڑا اکٹھا کرنے کا ایک مکمل نظام پنجاب میونسپل کارپوریشنز کے تحت پہلے سے موجود ہے جس میں ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں، گاڑیوں کے اخراجات اور منیجمنٹ کے اخراجات پہلے ہی عوام ادا کر رہے ہیں اب مزید ٹیکس عوام پر عائد کرکے نواز لیگ معلوم نہیں عوام کو کس جرم کی سزا دے رہی ہے ہم وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ اور کابینہ کے ان ارکان و مشورہ دینے والوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جو کوڑا ٹیکس لگا کر بےہودگی کی گئی ہے اس پر غور کرتے ہوئے تو پہلے سے جو نظام میونسپل سروسز کے حوالے سے قائم ہے اس کے ملازمین اور عملہ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ آخر وہ کیا کرے گا ؟ اور انکا جو بجٹ جاری ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح جاری ہوتا رہے گا؟ کوڑا اکٹھا کرنے کے نظام کو آؤٹ سورس کرنے کا تجربہ لاہور میں کیا جا چکا ہے دو کمپنیاں تبدیل ہونے کے باوجود کوڑے کے مسائل اسی طرح موجود ہیں البتہ کوڑا ٹیکس لگانے سے ٹھیکدار اداروں کی موجیں لگ جائیں گی انکے وارے نیارے ہونا شروع ہو جائیں گے اس لیے کہ یہ سارا منصوبہ ہی مراعات یافتہ طبقے کے لئے بنایا گیا ہے کیونکہ اب ٹیکس ٹھیکے دیے جائیں گے نئے بندوں کو نوازا جائے گا کمیشن کے نئے راستے کھلیں گے اور یہ سب عوام کے پیسوں سے ہوگا اگر نیا نظام لانا ہے تو پہلے سے موجود میونسپلٹی کے نظام کا تو فیصلہ کریں کہ اس سے ختم کرنا ہے یا جاری رکھنا ہے کوڑا ٹیکس کی تجویز نگران وزیراعلی محسن نقوی کی تھی جو عوام کے منتخب نہیں تھے لیکن عوام کی منتخب حکومت کے دعویدار اب اس تجویز پر عمل کر رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اب عوام کی مجبوریاں بھی سمجھیں ان کی حالت زار پر رحم کریں اور نٹ نئے ٹیکس تجربات سے باز آ جائیں۔