پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں مگر ان سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے، اب ہر پاکستانی کو سوچنا ہو گا اور اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ہیٹ ویو اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں درخت لگانے ہونگے کیونکہ درخت لگانا سنت بھی ہے اور ضرورت بھی، نہیں تو اگلے چند ہی سالوں پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں درجہ حرارت اس قدر بڑھ جائے گا کہ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ درجہ حرارت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پرانے درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ نئے درختوں کا نا لگنا ہے۔ ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 7 سال بعد ہمارے جنوبی پنجاب کے اضلاع کا درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ سکتا ہے جس کی جھلک آپ نے اس سال محسوس بھی کی ہو گی۔ یہ سب درخت نہ لگانے کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کا ہی پیش خیمہ ہے کہ گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی، کبھی خشک سالی کی صورت میں پانی کی شدید کمی اور کبھی شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی تباہی۔ ہمارے ملک پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور یہاں کے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے باوجود حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کا بہت فقدان ہے، ہم ہر آنے والے سال میں موسمی تباہی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس موسمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے واحد اور سستا حل درخت ہیں، ہمیں اب ہنگامی بنیادوں پر تمام سڑکوں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے دونوں اطراف میں درخت لگانے چاہیے کیونکہ ان کے بہت سے فوائد ہیں، درخت ہمارے سیارے کے پھیپھڑے ہیں جو ہمیں آکسیجن تو دیتے ہی ہیں ساتھ چھاؤں بھی مہیا کرتے ہیں بلکہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں، درخت بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں، زمینی کٹاؤ، لینڈ سلائیڈنگ سے بچاتے ہیں، درخت زمین کو بنجر ہونے سے بچاتے ہیں اور اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔درخت انسان، جانور، چرند پرند بلکہ درندوں کی بھی حقیقی ضرورت ہیں، یہ زندگی کی بقاء کے لئے بہت ہی ضروری ہیں لہٰذا حکومت وقت سے گزارش ہے کہ قومی سطح پر “اے پلانٹ فار پاکستان” کے نام سے شجرکاری مہم کا اعلان کرتے ہوئے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرے کہ تمام سرکاری محکمہ جات اپنی حدود میں آنے والے تمام علاقہ جات میں بالخصوص اپنے اپنے دفاتر کی باؤنڈری وال کے اندر اور باہر درخت لگائیں۔ محکمہ جنگلات، محکمہ ہائی وے، میونسپل کمیٹی اور اس کے علاوہ سی ای او ہیلتھ، شہر اور گاؤں کی سطح پر ہسپتال، بیسک ہیلتھ یونٹ، رولر ہیلتھ یونٹ اور ڈسپنسریوں کے اسٹاف کی ٹیمیں تشکیل دے کر لوگوں کو درختوں کے صحت کے حوالے سے فائدے بتا کر درخت لگانے پر آمادہ کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ سی ای او ایجوکیشن پرائمری، مڈل، ایلیمنٹری، ہائی سکولز کے طلباء کو جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے طلباء کو اور وائس چانسلرز یونیورسٹیز کے طلباء کو ایک ایک پودا لانے کا حکم دیں اس طرح فری میں بے شمار پودے اکٹھے ہو جائیں گے اور پھر اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اپنی نگرانی میں باقاعدہ شجرکاری کروائیں اور جو پودے بچ جائیں انہیں اپنے شہر کے دیگر حصوں میں لگوائیں۔ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کو آرڈر جاری کیا جائے کہ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز اپنے ہر روڈ کے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں بصورت دیگر رجسٹریشن کینسل کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ تمام زمینداروں کے رقبے جہاں جہاں سرکاری پانی کے نالے ہیں ان پر ہر زمیندار کو درخت لگانے کا پابند کیا جائے اور جو زمیندار درخت نہ لگائے اس کا سرکاری پانی بند کر دیا جائے اور اس پر بذریعہ پٹواری عمل درآمد کروایا جائے اور اسی طرح دیگر محکمہ جات اور اداروں سے خوب پودے لگوائے جائیں۔ اس کے علاوہ محکمہ اوقاف کے ذریعے تمام مساجد کے آئمہ کرام کو علمائے کرام کو خصوصی طور پر لیٹر بھیجے جائیں اور ان سے درخواست کی جائے کہ تمام مساجد کے آئمہ کرام اور علمائے کرام مساجد کے لاؤڈ سپیکرز میں اعلانات کے ذریعے اور جمعۃ المبارک کے خطبات میں دین اسلام کی روشنی میں درخت لگانے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور درخت لگوائیں جبکہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اس کام کی نگرانی کریں اور موقع پر جا کر چیک کریں۔ یاد رکھیں، گرمی ٹنڈ کروانے یا سوئمنگ پول یا نہر میں ڈبکی لگانے سے، نہانے سے ختم نہیں ہو گی بلکہ یہ درخت لگانے سے ختم ہو گی۔ ایک 12 فٹ کا گھنا سایہ دار درخت تین اے سی کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے اور درجہ حرارت کو 7 سے 15 سینٹی گریڈ تک کم کرتا ہے، جبکہ فائبر پلاسٹک یا ٹین کی چادر کے چھجہ کا سایہ 1 سے 3 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کم کرتا ہے۔ ہمارے اس اقدام سے انٹرنیشنل لیول پر بھی ہمیں پذیرائی ملے گی کیونکہ تمام دنیا کے لوگ ایسے عمل کو انتہائی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سراہتے ہیں۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے حصے کی شمع جلائیں درخت لگا کر اپنے شہر کو، اپنے صوبے کو اور اپنے ملک کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، اگر ہو سکے تو اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے کچھ پودے لے کر تقسیم کریں۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔