بنگلہ دیش عوام آمرانہ ہتھکنڈوں پر غالب آگئے

آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل حضرت علی نے فرمایا تھا کہ حکومت یا نظام کفر سے تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم سے نہی۔۔ تاریخ عالم نے ہمیشہ اس اصول کی سچائ کو ثابت کیا لیکن پھر بھی ہم تاریخ سے سبق حاصل نہی کرتے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں لیکن قانون قدرت تبدیل نہی ہوتا آج بنگلہ دیش میں کھلی آنکھوں نے دیکھا کہ خود کو ملک کا مختار کل سمجھنے والی چار بار کی منتخب وزیر اعظم کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ایک بار پھر یہ خاک وہیں بھارت پہنچ گئی جہاں کا خمیر تھا۔۔ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی تھیں جن کے بارے میں ہمیں یہی پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کا مرکزی کردار اور وجہ وہی تھے اس سے اگے سوچنے سمجھنے کی گنجائش نہی ہے جو ملک انہوں نے 1971 میں بنایا اسی کی فوج نے محض ساڑھے تین سال بعد ان کو پورے خاندان سمیت قتل کر دیا حسینہ واجد اور ان کی بہن شیخ ریحانہ جرمنی ہونے کے باعث بچ گئے تھے شیخ مجیب کی تدفین کتنے دن بعد اور کیسے ہوئ یہ آمریت کی ایک الگ داستان ہے حسینہ واجد اس کوچھ سال تک بھارت میں پالا پوسا گیا اور پھر وہ بنگلہ دیش میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کی اور طلبہ کی زبردست تحریک کے بعد 1996 میں پہلی بار وزیر اعظم بنی تاہم 2001 میں ان کی جماعت الیکشن ہار گئی اور تاہم 2009میں وہ دوبارہ اقتدار میں آ گئیں اور 5اگست 2024تک اقتدار میں رہیں مجموعی طور پر 19سال اقتدار میں رہیں بنگلہ دیش اور دنیا میں کسی خاتون وزیراعظم کا یہ سب سے بڑا ریکارڈ ہےاپنے طویل اقتدار میں انہوں نے ہر طرح کے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کر کے اپوزیشن پارٹیوں کو ختم کیا یہ ہتھکنڈے پاکستان کی عوام کے لیے بھی نئی بات نہی وہ ون پارٹی نظام لانا چاہتی تھیں اور ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر سامنے آئیں بھارت کی طرف انتہائ جھکاو رکھتی تھیں اور پاکستان سے خصوصی بغض اور نفرت تھی ان کے حکومت انہی دو نکات کے گرد گھومتی رہی پاکستان سے محبت رکھنے والے درجنوں جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اپوزیشن رہنماوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ان کے اور ان کے ایل خانہ کو بد ترین ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔۔ یہ کہانی بنگلہ دیش کی ہے کہانی میں مماثلت اتفاقیہ ہو سکتی ہےطلبہ تحریک کے زور پر آنے والی طلبہ تحریک کے زریعے ہی فارغ کر دی گئی اور اقتدار پھر سے فوج نے سنبھال لیا اور ئسینہ واجد اور ان کی بہن کو فوجی ہیلی کاپٹر میں ان کی روحانی درسگاہ بھارت پہنچا دیا گیا ہے وہاں کی فوج بھی خطے کی آمریتوں سے سبق حاصل کرتی رہی ہے شاید اسی لیے جلاوطنی کا آپشن کھلا رکھا گیا ورنہ بنگلہ دیش کے عوام انہیں ان کے والدین کے پاس ہی بھجوانا چاہتے تھے صرف ایک ماہ کی حکومت مخالف تحریک میں ہی سینکڑوں جونون بچوں بوڈھوں کو پولیس اور فوج نے نشانہ بنایا لیکن عوام ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ چکے تھے تو فوج کو آخر کار مجبور ہونا پڑا بنگلہ دیش میں حالیہ صورتحال اور اس سے قبل سری لنکا میں جو ہوا وہ دنیا کے باقی ممالک اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے ایک وارننگ ہے کرپشن ظلم جبر اور ریاستی اداروں کی طاقت کے بے دریغ استعمال کے زریعے اپوزیشن کو کچلا جا سکتا ہے لیکن ختم نہی کیا جاسکتا عوام کے دلوں میں جو غصہ اور نفرت دبی رہ جاتی ہے کہ اظہار پر غداری کا مقدمہ نہ بن جائے وہ ختم نہی ہوتی اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ غصہ ہمیشہ ایک آگ بن کر نکلتا ہے جس آگ میں ہم نے سری لنکا کے حکمرانوں کے گھر جلتے دیکھے تھے اور آج بنگلہ دیش کی طاقتور وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کو برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں گنا بھابن وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ جو تاریخی حیثیت رکھتی ہے اس میں مظاہرین گھس چکے ہیں آگ بھی لگائ گئی اور سامان بھی لے گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں فوج ان مظاہرین پر کونسے مقدمات قائم کرتی ہے اور کن عدالتوں میں یہ مقدمے اگر درج ہوئے تو چلائے جائیں گے یا فوج ریاست کے بہتر مفاد میں اینٹ گارے کی بنی عمارت پر عوام کا ریاست کے خلاف غصہ نکالنے کے عمل کو نظر انداز کر دے گی۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں