تجریدی اور علامتی افسانے بھی غیر تجریدی افسانوں کا تسلسل ہیں،تاہم افسانے کے اندر قاری کو شروع سے اخیر تک اپنی گرفت میں رکھنے کی خوبی ہونی چاہیئے
شاہد عزیز انجم
ہمارے افسانوی ادب نے نئی کروٹیں لیں اور چند نئے لکھنے والوں نے افسانہ نگاری کی اس روایت سے انحراف کیا جو پریم چند سے لے کر ترقی پسندوں تک چلی آئی تھی۔ ان لوگوں نے علامتی انداز میں تجریدی افسانے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جسے ’’جدید افسانے‘‘ کا نام دیا گیا ۔ یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصے میں پورے ادبی منظر نامے پر چھا گئے ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد یہ بھی محسوس کیا گیا کہ علامت کے الجھاؤ اور تجریدیت کی بھول بھلیوں کی وجہ سے عام قاری کا رشتہ جدید افسانہ نگار سے رفتہ رفتہ ٹوٹ رہا ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کی اس ٹوٹے ہوئے رشتے کو پھر سے جوڑ نے کے لئے تکنیک کے پہلو بہ پہلو (یا اس سے بھی زیادہ) نفسیاتی موضوعات پر توجہ دی جارہی ہے، نیز اکیسویں صدی میں ابھرنے والے تازہ ترین مسائل پر مبنی افسانے لکھے جارہے ہیں۔ ان گوناگوں اور مختلف النوع اسالیب پر مبنی افسانوں کے پیش نظر ایک نقاد کے لئے یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ آخر تجریدی اور علامتی افسانے کو غیر تجریدی افسانے کا تسلسل قرار دیا جائے یا نہیں ؟ یعنی غیر تجریدی افسانے کو پرکھنے کے لئے تنقید میں پہلے سے جو اصول و معیار قائم کئے گئے ہیں ، انھیں تجریدی افسانوں پر منطبق کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟
تجریدیت کی بات چلی ہے تو اتنا عرض کر دوں کہ یہ جدید انسان کی سوچ کا بہت ہی اہم اور فطری زاویہ ہے ( مگر واحد زاویہ نگاہ نہیں ہے )۔ اس تجریدی مکتبہ فکر کا کرشمہ ہمیں جدید تجریدی ریاضیات میں بھی نظر آتا ہے جس کا آغاز مغرب میں انیسوں صدی عیسوی ہی سے ہو چکا تھا۔ اس تجریدی ریاضیات کے جتنے موضوعے اور کلیسے ہیں ، ان سب کا ماڈل ہمیں روایتی ”حقیقی اعداد“ کے نظام میں بھی مل جاتا ہے یعنی تجریدی ریاضیات بہر حال ریاضیات ہی سے کوئی اور چیز نہیں ۔ ادب میں بھی تجریدیت ( علامت پسندی کی شکل میں ) انیسویں صدی ہی سے علم ریاضیات کے ساتھ متوازی طور پر چلتی رہی ہے۔ غرض کہ تجریدی افسانہ بہر صورت افسانہ ہی ہے، کچھ اور صنف ادب نہیں اور اس کا ماڈل ہمارے روزمرہ کی زندگی میں ضرور دریافت کیا جا سکتا ہے۔ یہ الفاظ دیگر تجریدی اور علامتی افسانے غیر تجریدی افسانوں کا تسلسل ہی ہیں۔ میری رائے میں ، تجریدی افسانے کی تفسیر و تعبیر کے لئے تو عام روش سے ہٹ کر دیگر گوں طریقہ اپنایا جا سکتا ہےلیکن اس کے معیار و اقدار کے تعین کے لئے وہی بنیادی طریقہ تنقید کارگر ثابت ہوگا جو غیر تجریدی افسانے کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ کہنے کی غرض یہ ہے کہ روایتی اور تجریدی افسانوں کی ماہیت میں بہ ظاہر کتنا ہی بُعد کیوں نہ ہو ، فنکاروں کے تخلیقی عوامل کی سطح پر دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا اور ان دونوں کو ذہنِ قاری کی تہہ میں اتارنے کے لئے ضروری ہے کہ:
صدف کو چاہیئے ہر رنگ میں کھلا رہنا
بعض نئے نقادوں اور نئے افسانہ نگاروں کا خیال ہے کہ پلاٹ، کردار سازی، منظر نگاری، مکالمہ اور جزئیات رسی وہ عناصر ترکیبی ہیں جن کے وجود یا عدم وجود کی بنا پر روایتی افسانے اور عصری افسانے کے درمیان حدِ فاصل کو کھینچا جا سکتا ہےلیکن یہ مفروضہ درست نہیں کیونکہ یہ اجزائے ترکیبی دونوں نوعیت کے افسانوں کے لئے یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ چاہے ’’شعور کی رو ‘‘والی تکنیک پر مشتمل افسا نہ ہو یا علامتی اور تجریدی افسانہ ، اس میں کچھ نہ کچھ پلاٹ ہوگا ہی جس کے ارد گرد افسانہ نگار مکڑی کے جالے کی طرح افسانے کا تانا بانا بنتا ہے۔ افسانے کے چند مقامات پر کچھ عقدے ( Crux) ہوتے ہیں جن کے ساتھ افسانے کی تارو پود (Texture) اور ساخت (Structure) مل کر اور ان سے ہم آہنگ ہو کر اسے فن پارے (Artifact) کا درجہ عطا کرتی ہیں ۔ انہی عقدوں کے تسلسل و ترتیب سے پلاٹ معرض وجود میں آتا ہے۔ اس لئے پلاٹ کے بغیر ’’عصری افسانے‘‘ کا تصور ہی کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جہاں تک کردار سازی کا تعلق ہے ، افسانے کا ہر کردارا پنے رویے اور طور طریقے (Behavior) کی وجہ سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ اور یہ رویے اور طور طریقے اس کردار کی نفسیات کے مظہر ہوتے ہیں۔
ایک اچھا افسانہ نگار چاہے وہ جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو ، اپنے کردار کی نفسیات کو بیا نیہ انداز میں کبھی نہیں پیش کرتا ، بلکہ ایسے محل وقوع (Situations) پیدا کر دیتا ہے جن سے گزر کر قاری کردار کی نفسیات تک سیدھی رسائی حاصل کر سکے۔ میری نظر میں نفسیات کا انعکاس ہی افسانہ نگاری کی جان ہے اور اس سے بھی اہم افسانہ نگار کا وہ فنکارانہ کمال ہوتا ہے جس سے وہ قاری کو کردار کے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے اور قاری کے ذہن میں کردار کے ساتھ یک دردی (Empathy) کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس یک دردی کی وجہ سے ہی قاری کے اندر جمالیاتی نشاط پیدا ہوتا ہے جو ظاہر ہے، کسی بھی ادبی تخلیق کی منزل مقصود ہوا کرتا ہے۔ اس عمل میں روایتی و عصری یا قدیم و جدید افسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ جہاں تک ’’منظر نگاری ، مکالمہ اور جزئیات رسی‘‘کا تعلق ہے، یہ اشیاء کسی بھی افسانے کی بنت کاری ، تارو پود اور ساخت کی تشکیل میں بہ وقت ضرورت کام آتی ہیں اور ضمنی حیثیت رکھتے ہوئے بھی کبھی کبھی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اس لئے تجریدی افسانے میں ان چیزوں کے استعمال کی کہیں ممانعت نہیں ۔
جب میں تہذیب انسانی کے ارتقائی مراحل کے ساتھ ساتھ افسانوی ادب کی تاریخ ارتقاء پر غور کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک طفلِ ناداں سے لے کر عنفوان شباب اور سن بلوغ تک فرد کے ذہن و شعور کے ارتقاء کا خیال آتا ہے۔ ایک بچہ کہانی سننے کے قابل ہوتا ہے تو اُسے سیدھے سادے الفاظ اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ( مثلاََکوے اور کنکر کی کہانی یا بندر اور مگر مچھ کی کہانی وغیرہ) سنائی جاتی ہیں، جنھیں وہ خود یاد رکھ کے اس کی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ، اس کے اپنے بنائے ہوئے قواعد کے اصول کے تحت بنانے لگتا ہے۔ بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو سوتے وقت اس کی نانی یا دادی اُسے کہانیاں سناتی ہیں جنھیں سنتے سنتے وہ سو جاتا ہے۔ یہ کہانیاں عموماً راجہ مہاراجہ، شیر ، گائے، بکری وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں، جنھیں وہ دلچسپی سے سنتا ہے۔ ان کہانیوں میں کہیں کہیں اخلاقی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔ ان سے وہ زندگی میں پہلی بار اخلاقیات کا درس لینا شروع کرتا ہے۔ آج کل ٹی وی میں کارٹون سیریل سے بچوں کی بے پناہ دلچسپی بھی بچوں کی اس ذہنی سطح کی غماز ہے۔ ذہن طفل کے ان مرحلوں کو لوک کہانیوں کے دور سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو وہ بیک وقت علم و آگہی کی دنیا میں قدم رکھتاہے اور خواب و خیال نیز واہمہ (Phantasy) کی دنیا میں کھو جانا چاہتا ہے۔ اس عمر میں اُسے دیو ، جن، پری جیسے مافوق الفطرت کرداروں کی کہانیوں سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اُسی قسم کا کارٹون سیریل دیکھنا پسند کرتا ہے جس میں اسی نوعیت کی کہانیاں پیش کی گئی ہوں ۔ بچے کے ذہنی ارتقاء کے اس اس دور کو میں ’’داستان کے دور‘‘کے مماثل سمجھتا ہوں ۔ عالم طفلی کے بعد جب انسان عنوان شباب (Adolescence) میں داخل ہوتا ہے تو اس کے جذبات میں اتھل پتھل مچنے لگتا ہے ، اس میں جنسی بیداری پیدا ہوتی ہے اور وہ رومانیت کی دنیا میں کھو جانا چاہتا ہے۔ اس طرح رومانی افسانے جو اس کی زندگی سے بہت قریب ہوتے ہیں ، اُسے پسند آنے لگتے ہیں۔ آگے چل کر انسان سن بلوغ (Adult-hood) میں پہنچ کرد نیوی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے لگتا ہے ۔ اُسے طرح طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہےاور اس کا ذہن خواب و خیال کی دنیا سے ہٹ کے ٹھوس حقائق کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اُس وقت تک اس کی عقل و آگہی بام عروج کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔ لہذا اس کا پختہ ذوق تجسس اُسے اپنی ذات کے اندر جھانک کے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کو اپنی نفسیات اور واردات قلبی میں ایک’’ جہانِ دیگر‘‘ کی رنگارنگی کا نظارہ نصیب ہوتا ہے۔ حیات انسانی کے اس دور کو میں افسانوی ادب کے ’’دور عروج‘‘سے مشابہ قرار دیتا ہوں ، جس میں فرد کی تعقل پسندی اور جذباتی پختگی تمام کمال ہنرمندی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اس طرح ذات سے لے کر کائنات تک کے مختلف موضوعات سے اس پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں اور ہر نیا موضوع تخلیقی اظہار کے لئے اپنے ساتھ ایک نیا اسلوب لاتا ہے۔ یہیں سے افسانہ نگار کے لئے کئی راہیں کھل جاتی ہیں۔ اپنے ذوق کی رہنمائی میں وہ اپنی راہ کا انتخاب کر کے اس پر چل نکلتا ہے۔ اس طرح کوئی افسانہ نگار مارکسزم سے اثر قبول کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کوئی نظر یہ فرائڈ سے۔ کوئی نو بہ نو ابھرتے ہوئے سماجی اور سیاسی مسائل پر قلم اٹھاتا ہے تو کوئی فرد کی شخصی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کو فن کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی’’ شعور کی رو‘‘کی تکنیک کو اپناتا ہے تو کوئی افسانوں میں علامتوں کو’’ رشتوں کے مابین باہمی رد عمل کے تواتر‘‘کے طور پر قبول کرتا ہے۔ چونکہ افسانے کی نوعیت فرد کی شخصیت کے ارتقاء کی آئینہ دار ہوتی ہے، اس لئے ہر قسم کے افسانے کی اپنی اہمیت ہے۔ کسی ایک قسم کے افسانے کو کسی دوسری قسم کے افسانے پر فوقیت حاصل نہیں ۔
راقم الحروف نے سطور بالا میں جو کچھ لکھا ہے ، اس کا لب لباب یہ ہے کہ فن افسانہ نگاری نے لوک کہانیوں کے دور سے نکل کر داستان کے دور سے گزرتے ہوئے جدید دور تک لمبی مسافت طے کی ہے ۔ آج کے تجریدی اور علامتی افسانے بھی غیر تجریدی افسانوں کا تسلسل ہی ہیں۔ غیر مرئی یا آسمان سے اتری ہوئی اجنبی چیز نہیں ہیں۔ لہذا ان کے معیار واقدار کو پرکھنے کا وہی طریقہ اپنانا چاہئے جو غیر تجریدی افسانوں کے لئے مستعمل ہےیعنی افسانے کے اندر قاری کو شروع سے اخیر تک اپنی گرفت میں رکھنے کی خوبی ہونی چاہیئے ۔ کامیاب افسانہ وہی کہاجائے گا جسے پڑھتے وقت قاری افسانے کے کرداروں کے ساتھ اپنے آپ کو ضم کر دے، ان کے سکھ دکھ کے ساتھ ہر قدم پر اپنے آپ کو شامل کرتا رہے، ہر قدم پر اسے اکساہٹ ہو کہ آگے کیا ہونے والا ہے، نیز اختتام پر پہنچ کر اس کے اندر ایک تحیر ، استعجاب یا اضطراب کی ایسی کیفیت بیدار ہو جس سے قاری کو یہ محسوس ہو کہ ابھی کچھ اور خلا باقی رہ گیا ہے جسے اُسے خود پر کرتا ہے ۔ چاہے افسانہ روایتی ہو یا جدید، غیر تجریدی ہو یا تجریدی ، وہ اگر اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو تو اُسے کامیاب افسانہ نہیں کہا جا سکتا۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں