سلطان محمود غزنوی اور خضرؑ کا واقعہ

برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں یوں تو بہت سے اولیاء ، قطب اور ابدال نے خلق خدا کی اصلاح میں اپنا تن ، من ، دھن قربان کیا ۔مخلوق کو خالق کے احکامات کے عین مطابق زندگی بسر کرنے میں جن اسرار و رموز کی اشد ضرورت تھی ۔انہیںاُس اُجالا کی جانب انتھک محنت ہی کی بدولت گامزن کیا ۔انسانیت کی فلاح کا بنیادی مقصد ایک اللہ ایک رسول ﷺ اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر شرک کے اندھیروں کو مٹانا تھا ۔صداقت ، دیانت اور اخلاق عالیہ کی شمع روشن کر کے جہالت و تاریکی کا خاتمہ ممکن بنانا تھا ۔یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی 2نومبر971ء؁ کو سلطنت غزنویہ میں پیدا ہوئے ۔سلطان غزنوی کا دور اقتدار 999ء؁ تا1030ء؁ تک رہا ۔سلطان کے والد سبکتگین ایک ترک غلام کماندار تھے جنہوں نے 977ء؁ میں غزنوی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔انہوں نے سامانیوں کے ماتحت کی حیثیت سے خراسان اور ماورا ء النہر پر حکمرانی کی ۔سلطان غزنوی کی والدہ الپتگین کی صاحبزادی تھیں۔آپکو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کا بہت شوق تھا ۔احمد میماندی ان کا سکول کے ایام کا قریبی دوست تھا جو فارس کے دارالحکومت زابلستان کا سکونتی تھا اور اس کا رضاعی بھائی تھا ۔سلطان کو آقا کریم ﷺ سے بے پنا ہ عشق تھا اور آپ سچے عاشق رسول پاکﷺ تھے۔آپکا شمار اُن عالی مرتبت حکمرانوں میں ہوتا تھا جو حضرت محمد ؐ کی تعلیمات اور قرآن و سنت کے عین مطابق انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرتے تھے ۔سبکتگین نے کوساری جہاں نامی خاتون سے شادی کی ۔ان کے بطن سے ان کے دو بیٹے محمود غزنوی اور ا سماعیل غزنوی پیدا ہوئے ۔ جو اس کے جانشین ہوئے ۔سلطان محمود غزنوی کے دو بیٹے مسعود غزنوی اور محمد غزنوی تھے جو اس کے بعد اس کے جانشین مقرر ہوئے ۔سلطان کی بہن ستار ِمعلی کی شادی محمود بن عطا ء اللہ علوی سے قرار پائی ۔جنہیں غازی سالار ساہو کے نام سے تاریخ میں شہرت حاصل ہے ۔ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو غازی سید سالار کے نام سے مشہور تھا ۔محمود غزنوی کو اپنے قریبی ساتھی ملک ایاز سے بہت محبت تھی جو ایک جارجیائی غلام تھا۔سلطان محمود غزنوی کی وجہ شہرت کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ آپ نے ہندوستان پر سترہ کامیاب حملے کئے اور اللہ کریم نے آپکو ہر مرتبہ فتحیاب کیا ۔ سلطان اکثر و بیشتر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے دربار لگایا کرتا تھا ۔ایک مرتبہ دربار لگایا گیا تو ہزاروں کی تعداد میں افراد شریک ہوئے ۔سلطان نے دربار میں موجود تمام افراد سے کہا کہ کیا آپ میں سے کوئی شخص مجھے حضرت خضرؑ کی زیارت کروا سکتا ہے ؟ یہ سن کر سب لوگ خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور سوچنے لگے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میں سے کوئی اس بات کی ہامی بھر لے کہ وہ سلطان کو خضرؑ کی زیارت کروا دے جو کہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔اچانک اس دربار میں موجود ایک دیہاتی اُٹھ کھڑا ہوا اور سلطان سے مخاطب ہوا کہ میں آپکا حکم پورا کر سکتا ہوں لیکن میر ی ایک شرط ہے ۔وہ یہ کہ مجھے چھ ماہ تک دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا ۔میں نہایت ہی غریب آدمی ہوں ۔میرے اس عمل کی وجہ سے میرے بیوی بچے بھوک و افلاس کی زندگی گذرانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔اگر آپ چھ ماہ تک ان کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کر دیں تو میں یہ کام کر سکتا ہوں۔اس کی بات سن کر سلطان نے فوراً یہ شرط منظور کر لی ۔چنانچہ اس کے گھر کا خرچہ بادشاہ ِ وقت نے اپنے ذمہ لے لیا ۔چھ ماہ گزر جانے کے بعد بادشاہ نے اسے طلب کیا اور پوچھا تم نے کیا کیا ۔یہ شخص کافی پریشان ہوا اور گھبرا گیا۔ اس نے سلطان سے کہا کہ جناب میںوظائف و عملیات تو کرتا رہا لیکن آخر میں اچانک کچھ عمل اُلٹ ہونے کی وجہ سے سارا کام خراب ہو گیا ۔لہذا اس کام کیلئے مزید چھ ماہ درکار ہو نگے ۔بادشاہ نے اُسے مزید چھ ماہ کی مہلت دے دی جب یہ چھ ماہ بھی پورے ہو گئے تو بادشاہ نے اسے دوبارہ طلب کیا ۔اس نے کہا بادشاہ سلامت کہاں میں اور کہاں حضرت خضرؑ ۔میری کیا اوقات کہ میں آپکو خضرؑ کی زیارت کروا سکوں۔میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا ۔میرے بچے بھوک سے مر رہے تھے ۔چنانچہ میں نے سوچا کہ چھ ماہ تو آرام سے گزر جائیں گے ۔سلطان نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور کہا کہ اس شخص کی کیا سزا ہو نی چاہیئے ۔وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ سلامت سے جھوٹ بولا ہے لہذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے ۔دربار میں موجود نورانی صفت بزرگ شخص سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وزیر نے درست کہا ہے ۔بادشاہ نے ایک اور وزیر سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے اس نے کہا کہ اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈال دیا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کر مرے ۔اس طرح اسے مرنے میں کچھ وقت لگے گا ۔دربار میں بیٹھے بزرگ نے کہا یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔اس جھوٹے شخص کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیئے اچانک بادشاہ کے ذہن میں خیال آیا کہ میں اپنے پیارے غلام ایاز سے رائے لوں۔جب ایاز سے پوچھا گیا تو اس نے کہا بادشاہ سلامت آپ کے خزانے سے ایک سال تک اس کے بچے رزق حاصل کرتے رہے اور آپکے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے آپکی شان میں کوئی فرق پڑا ۔اگر میری بات مانیں تو اسے معاف کر دیں۔ اگر اس شخص کو قتل کر دیا گیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے ۔یہ بات سن کر دربار میں بیٹھا بزرگ بولا ایاز ٹھیک کہہ رہا ہے ۔سلطان محمود غزنوی نے بزرگ کی بات سن کر اس سے کہا کہ آپ نے ہر وزیر کی بات سن کر اُسے درست قرار دیا ۔آپکی یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی ۔بزرگ نے کہا کہ بادشا ہ سلامت پہلی مرتبہ جس وزیر نے کہا کہ اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے ۔قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا ۔ غلطی اس کی نہیں آپکی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنا دیا ۔دوسرا یہ کہ جس وزیر نے کہا کہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اس کا باپ بادشاہوں کے کتوں کو نہلایا کرتا تھا اور کتوں سے شکار کھیلا کرتا تھا ۔اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرو ایا۔یہ آپکی غلطی ہے کہ آپ نے ایسے شخص کو وزیر بنادیا ۔جہاں ایسے وزیر ہونگے تو لوگ بھوک سے ہی مریں گے۔تیسرا یہ کہ ایاز نے درست فیصلہ کیا ۔ ایاز سیدزادہ ہے اور سید کی شان یہ ہے کہ سید اپنا سارا خاندان کربلا میں شہید کروا دیتا ہے لیکن پھر بھی بدلہ نہیں لیتا ۔یہ سن کر سلطان اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا تم نے آج تک مجھے نہیں بتایا کہ تم سید ہو ۔آج بابا جی نے میرا راز کھول دیا ۔سنو بادشاہ سلامت اور درباریویہ بابا کوئی عام شخص نہیں بلکہ خضر ؑ ہے ۔یہ سن کر سلطان اور تمام دربار حیران رہ گیا ۔سلطان محمود غزنوی نے دق او ر سل کے مرض میں مبتلا ہو کر ۳۰اپریل۱۰۳۰ء؁ کو۵۹ سال کی عمر میںغزنی میں وفات پائی ۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں