بیٹی کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی بتائیں کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کو برداشت،تحمل ،برد باری ،عفو در گزراور ایک دوسرے کے احترام کا درس دیتا ہے
سماج میں بڑھتےعدم برداشت کے نتیجے میںآج عدالتوں میں طلاق ،خلع اور بچوں کی حوالگی کے مقدموں کی تعداد بڑھ چکی ہے
مشعل سیف
ایک خاتون نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے نصیحت کی’’بیٹی سسرال میں رہ کرہربات برداشت کرنا۔جب جب کسی بات پرغصہ آئے تو آنگن میں ایک پھول لگا دینا‘‘۔
بیٹی رخصت ہو کرسسرال آگئی۔کچھ عرصہ بعد ماں بیٹی سے ملنے آئی تو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بیٹی کا آنگن پھولوں سے بھرا تھا۔
اِن پھولوں سے آنگن کو بھرتے بھرتے نجانے بیٹی کا دامن کتنی بار پھولوں سے لگے کانٹوں سے تارتارہوا ہوگا۔اِن پھولوں کے رنگوں میں بیٹی کے کتنے ارمانوں کا خون شامل ہو گا۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا ۔
کاش اِس خاتون کی طرح بیٹے کی ماں بھی اپنے بیٹے کو نصیحت کرتی کہ بیٹا جب کسی کی بیٹی بیاہ کر تمہارے گھر آئے تو اُس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو برداشت کرنا۔غصہ آئے توآنگن میں ایک کی بجائے دو پھول کھلا دینا۔بجائے اِس کےکہ غصہ آنے پر نازک اندام بچی کے منہ پر دو طمانچے لگا کراُنھیں گل رنگ کر دینا۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی صورت حال میں زیادہ قصور والدین کا ہے۔جو صرف اور صرف بیٹی کو برداشت کا درس دیتے دیتے اپنی آدھی زندگی گزار دیتے ہیںاورپھرآدھی زندگی بیٹی کی برداشت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کوسنبھالنے میں گزار دیتے ہیں۔اگر تمام والدین خصوصاًمائیں اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی بتائیں کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کو برداشت،تحمل ،برد باری ،عفو در گزراور ایک دوسرے کے احترام کا درس دیتا ہےتو شاید آج معاشرے میں انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک عدم برداشت کے نتیجے میں یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی خانگی مسائل اِس حدتک بڑھے نہ ہوتےکہ دیوانی عدالتیں ایسے سائلوں سے بھری رہتیں جو طلاق ،خلع اور بچوں کی حوالگی کے مقدمےلے کرآئے ہوں۔
والدین بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں۔اُنھیں اسلام کے بنیادی اصول سکھائیں۔مشرتی آداب اور معاملات کے بارے میں آگاہ کریں۔حقوق و فرائض سے روشناس کرائیں۔اُنھیں بتائیں کہ والدین ،بہن بھائیوں ،بچوں،میاں بیوی ،رشتہ داروں اور ہمسائیوں کے کیا حقوق و فرائض ہیں۔مسائل سے کیسے نبرد آزما ہونا ،کہاں برداشت کرنا اور کہاں اپنے حقوق کے لیےآواز اُٹھانی ہے۔
قرانِ پاک اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو دینِ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو سب سے زیادہ صبرو تحمل اور برداشت کا درس دیتا ہے۔اگر صبرو تحمل کا دامن چھوٹ جائے تو جذبات کے بہائو میں انسان اندھا ہو کر اچھے برے کی تمیز کھو دیتا ہے۔وہ انسان مرد ہو یا خاتون۔۔۔۔۔اِس کیفیت میں کئے گئے فیصلے اور اقدامات پچھتاوا بن جاتے ہیں۔جلد بازی اور عدم برداشت کے نتیجے میں اُٹھایا ہوا قدم اپنے ہی گلے پڑ جاتا ہے۔
عدم برداشت معاشرے کی رگوں میں زہر بن کر اتر گیا ہے۔ہر دوسرا فرد صبر و تحمل سے عاری نظر آتا ہے۔سڑک پر چلتے ہوئے ۔۔۔گاڑی چلاتے ہوئے ۔۔۔۔لائن میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ۔۔۔۔حتیٰ کہ تندور پر روٹی خریدتے ہوئے ہرفرد جلد بازی اورعدم برداشت کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ عدم برداشت کے زہریلے اثرات سب سے زیادہ خانگی زندگی میں نظر آتے ہیں جہاں بہو ساس کو برداشت نہیں کرتی ،ساس بہو کو بیٹی کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔نند بھاوج سے تنگ ہے، تو بھاوج نندوں کے ظلم و ستم کا رونا رو رہی ہے۔دیورانی جیٹھانی کے رویے سے نالاں ہے توجیٹھانی دیورانی کے پھوہڑ پن سے بیزار۔گویا ایک جنگ ہے جو پیہم جاری ہے۔اور اس جنگ کے مرکزی کردار میاں بیوی ہیں۔میاں۔۔۔۔۔ بیوی کے رویےکی شکایت کرتا نظر آتا ہے تو بیوی شوہرپرحقوق ادا نہ کرنے کا الزام لگاتی دکھائی دیتی ہے۔اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس خانہ جنگی میں گھر بھر کی خوشیاں داوء پر لگ جاتی ہیںجس میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔وہ معصوم بچے جنھیں ابھی ماں باپ کے سائے میں شفقت، ہمدردی،محبت اور ممتا جیسے جذبات سے لطف اندوز ہونے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
والدین بیٹی کو برداشت کا سبق ضرور پڑھائیں لیکن صرف اُن باتوں کو برداشت کرنے کا جو قابلِ برداشت ہیں۔یا پھرجوصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں مثلاًشوہر کا کاروباراچھا نہیں۔اولاد جیسی نعمت ملنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیر ہو گئی ہے۔گاڑی اور بنگلہ نہیں ہےیا پھرشوہر بیوی کو برینڈڈ لباس نہیں دلوا سکتا۔مری کی سیر کے لیے نہیں لے جا سکتا ۔روزانہ باہر سے کھانا نہیں منگوا سکتا۔بچوں کو مہنگے کھلونے نہیں دلوا سکتا۔ایسی صورت میں عورت صرف اللہ تعالیٰ سے بہتری کی دعا کرےاور صبر شکر کا دامن تھا مے رکھےلیکن اگرمرد بد چلن ،نشئی،ذہنی اور جسمانی تشدد کا عادی،نکھٹواور بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے والا ہے تو لڑکی جلد سے جلد اپنے والدین کو آگاہ کرے اپنی زندگی کا بہتر فیصلہ کرے۔اور ایسے مرد سے جان چھڑوائےنہ کہ اپنی ساری زندگی اسکے آنگن میں انگاروں میں جل کر پھول کھلاتی رہے۔
مرد کے حوالے سے بھی ایسی ہی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔اگر بیوی میں ایسی خامیاں ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں درستگی اوربہتری آنے کے امکانات ہیں تو برداشت کیجئے۔بیوی کو مواقع فراہم کریں اور اصلاح کے لئے گاہے بگاہےمل بیٹھ کر بات چیت کریں۔مثلاًاگر وہ شوہر کی آمدنی سے زیادہ کی فرمائش کرتی ہے گاڑی اور بنگلہ رات رات میں لینا چاہتی ہےبات بے بات غصہ کرتی ہے۔گھر کی ترتیب وآرائش میں کوتاہی کرتی ہےساس سسراورنندوں کے ساتھ رویہ درست نہیں رکھتی ۔بچوں کی تعلیم و تربیت سے لاپرواہی برت رہی ہے تواسے سمجھائیں نہ کہ آس پر ہاتھ اُٹھائیں۔بد زبانی کریں ۔اور پھر مار پیٹ اورہاتھا پائی میں خاندان کی خوبصورت مالا ٹوٹ کر بکھر جائے۔البتہ اگربیوی بد چلن بد کردار ہے۔خاوند کے حقوق پورے نہیں کرتی۔گھر بسانے کی کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتی اور نہ ہی رکھنا چاہتی ہے تو پھرمرد بھی دیر نہ لگائےاور اپنی زندگی کا بہتر فیصلہ کرکے ایسی عورت سے جان چھڑائےتاکہ دو خاندانوں کی ذہنی ازیت کا خاتمہ ہو۔آنگن کے وہ پھول جو برداشت کرتے ہوئے عورت لگائے یا مرد اُن سے کسی کا دامن تارتار نہ ہو۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں