کسی بھی جمہوری ریاست میں مقتدر اور طاقتور حلقوں سے اختلاف رائے اور ان کی کوتاہیوں یا ںدعنوانیوں پر اختلاف رائے رکھنا جمہوری عمل کا نا گزیر جزو ہے جب طاقت کے نشے میں چور مقتدر خود کو عقل کل اور مختار کل سمجھنے لگتے ہیں تو اختلاف رائے کے دروازے سیاسی اور جمہوری قوتوں حتیٰ کہ عوام پر بھی بند کر دیے جاتے ہیں اور مخالفین کی اواز دبانے کے لیے ریاستی اداروں کی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے تو تشدد ہنگاموں اور انارکی کے دروازے کھل جاتے ہیں جمہوری قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور غیر جمہوری اور غیر سیاسی طاقتیں ،ملک بچانے،، کے لیے میدان میں اجاتی ہیں اور جمہوری عمل پر غالب آ جاتی ہیں بنگلہ دیش میں یہی کچھ ہوایہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخ حسینہ کےغلط اقدامات، خراب طرزِ حکمرانی اور بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت، فوج کے لیے سنہری موقع ثابت ہوئیں لیکن فوج کی مداخلت اور جمہوری عمل کو مزید نقصان پہنچانے کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس طرح کے اقدام کے تباہ کُن نتائج سامنے آتے ہیں اور نسلوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی آوازوں کا گلہ گھونٹ دینے کا مطلب یہی تھا کہ سیاسی جنگیں جو پارلیمنٹ یا بیلٹ باکس پر لڑی جاتی ہیں، وہ اب سڑکوں پر لڑی جائیں۔ لیکن پھر بھی فوج کی جنہوری عمل پر غلبے کی حمایت نہی کی جاسکتی قابلِ اعتماد اور شفاف انتخابات جلد از جلد منعقد کرکے عوام کو جلد از جلد ان کے جمہوری حقوق واپس کردینے کے بعد بغیر کسی رکاوٹ کے فوج کو بیرکوں میں واپس چلے جانا چاہیے۔ ایک متحرک سیاسی ماحول میں اگر فوج جلد پیچھے نہ ہٹی تو بنگلہ دیش عدم استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہوجائے گا۔حسینہ واجد نے ریاست کی پولیس اور اداروں کو عوام کی رائے کچلنے کے لیے بے دریغ استعمال کیا اور پولیس کی گولیوں سے سینکڑوں شہری مارے گئے طاقتوروں کی کٹھ پتلی پولیس کے لیے ریاست میں آج کوئ جائے امان نہی پولیس کی نمائندہ تنظیم عوام سے معافیاں مانگ رہی ہے اور پولیس ہڑتال پر چلی گئی ہے ان میں عوام کا سامنا کرنے کی تاب نہی ہےبنگلہ دیش پولیس ایسوسی ایشن کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ پولیس فورس نے معصوم طلباہ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے لیے ہم معافی مانگتے ہیں۔انہوں نے استدلال کیا کہ ان کے افسران کو فائرنگ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور انہیں ولن کے طور پرپیش کیا گیا۔ پولیس اور ریاست کے دیگر اداروں کی آئینی زمہ داری ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی کا تحفظ ہے نہ کہ مقتدر کے اقتدار کا تحفظ یا طاقتوروں کے اشاروں پر عوام پر گولی چلانا یا ان کو جبر کا نشانہ بنانا اگر وہ ایسا کریں گے تو عوام ان سے اور ان اداروں سے نفرت کرنے میں حق بجانب ہیںحسینہ واجد کے زوال میں تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے اسباق ہیں بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک جن کی سماجی سیاسی خصوصیات بنگلہ دیش سے مماثل ہیں۔ معاشی کمزوری کے ساتھ سیاسی جبر کا امتزاج لوگوں میں اضطراب پیدا کرنے کا نسخہ ہے۔ اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی رفتار کم ہونے نے ملک کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا اور اخر کار جمہوری عمل ہی ختم ہو کر رہ گیا اور ہاتھ میں مقتدر کے بھی کچھ نہ ایا اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں