پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں اوربا ٹا ریٹ

پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں اوربا ٹا ریٹ

برصغیر پاک وہند میں بھلا کون ہوگاجو باٹا شوز کے نام کو نہ جانتا ہو اور جس نے باٹا شوز نہ خریدے اور پہنے ہوں ۔ ریڈیو پر ایک کمرشل اشتہار چلتا تھا ’’پہلے باٹا پھرسکول ‘‘جو بچے بچے کی زبان ہوا کرتا تھا ۔بچپن میں سکول شوز تو ہمیشہ ہی باٹا کے دلائےجاتے تھے ۔یہ اشتہار اب بھی یاد آتا ہے تو بچپن کے سہانے دن یاد آجاتے ہیں ۔ دادا مرحوم اور والد صاحب نہ صرف خود یہ جوتے استعمال کرتے بلکہ بچوں کے لیے بھی باٹا شاپ سےہی شوز خریدتے تھے ۔میں نے ایک مرتبہ اباجی سے پوچھا کہ ہم باٹا ہی کے شوز کیوں پہنتے ہیں تو کہنے لگے کیونکہ یہ معیاری اور مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت ہوتےہیں ،دوسرے ان کی خریداری پر بھائو تاوُ نہیں کرنا پڑتا ان کے ریٹ فکس ہوتے ہیں اور صدیوں سے آزمودہ ہیں ۔پھر بعد از فروخت کسی بھی نقص یا خرابی کی صورت میں تبدیلی اور واپسی کی ضمانت بھی ہوتی ہے ۔یوں باٹا کمپنی سے یہ طویل وابستگی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔کہتے ہیں کہ باٹا کمپنی کی وجہ شہرت صرف اس کا معیار ہی نہیں بلکہ اس کے منفرد ریٹ کا اچھوتا انداز بھی ہے جسے باٹا ریٹ کہا جاتا ہے ۔جس کے تحت باٹا شوز کمپنی کی ہر پراڈکٹ کی قیمت کاروباری حکمت عملی کے مطابق ننانوے پر ختم ہوتی ہے ۔اگرچہ اس میں محض ایک ہی عدد کا معمولی فرق ہوتا ہے لیکن کسی پراڈکٹ کی ایک کم ہندسے والی قیمت گاہک کی خریداری کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ہم نے اباجی سے پوچھا کہ باٹا ریٹ ننانوے روپے ننانوے پیسے کیوں ہوتا ہے جبکہ اگر سو روپے ہی لکھ دیا جائے تو کافی ہے کیونکہ وصول تو ایک سو روپے ہی وصول کئے جاتے ہیںاور کبھی کسی کو ایک پیسہ واپس کرتے نہیں دیکھا ۔انہوں نے بتایا کہ باٹا کمپنی چاہتی ہے کہ مہنگے داموں شوز کو فروخت بھی کیا جائے، لوگوں کو مہنگائی کا احساس بھی نہ ہونے پائے اور لوگ سمجھیں کہ کمپنی کو اپنے گاہک کا کتنا خیال ہے کہ وہ ایک پیسہ بھی زیادہ لینا نہیں چاہتی ۔یہ باٹا ریٹ کاروباری دنیا میں فکس ریٹ کی ایک مثال بن گئے ہیں اور دکاندار جب کوئی رعایت نہیں کرنا چاہتا تو کہتا ہے کہ ہمارا تو باٹا ریٹ ہے یعنی ریٹ فکس ہے ۔
یہ سب مجھے اس وقت یاد آیا جب ہماری حکومت نے چند دن قبل پٹرول کے ریٹ میں نو روپے ننانوے پیسے کاا ضافہ کر کے قوم کو احساس دلایا کہ انہیں عوام کا کس قدر احساس ہے ؟ وہ چاہتے تو پورے دس روپے بھی اضافہ کرسکتے تھے مگر بھلا عوامی حکومت تو لوگوں پر ایک پیسے کا بھی بوجھ ڈالنے سے گریز کرتی ہے ۔کاش ہماری نسل ایک پیسے کی اہمیت سے واقف ہوتی اور یہ ایک پیسہ کبھی دیکھا بھی ہوتا تو پتہ چلتا کہ پٹرول کی قیمت بڑھاتے وقت ایک ایک پیسے کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ ہر چیز کا ریٹ ہر مالی سال کے بجٹ پر بڑھتا تھا مگر ترقی کے اس دور میں اب کسی اضافے کے لیے نئے بجٹ کا انتظار نہیں کیا جاسکتا ہر پندرہ دن بعد اس میں کمی بیشی کرلیتے ہیں ۔ایک مرتبہ دو روپے کم کرتے ہیں تو اگلی مرتبہ چار روپے بڑھا دیتے ہیں ۔یوں رفتہ رفتہ پٹرول کی قیمت تقریباََتین سو روپے لیٹر تک چھونے جا رہی ہے ۔پیٹرولیم مصنوعات میں یہ ایک ماہ کے دوران ہونے والا دوسرا اضافہ ہے ۔پیٹرولیم مصنوعات کے بڑھنے سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہوتا ہے اور شرح مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے ۔ بہر حال سنا ہے کہ اوگرا نے تو سمری دس روپے فی لیٹر اضافے کی ہی بھجوائی تھی مگر حکومت نے کمال مہربانی صرف نو روپے ننانوے پیسے کا اضافہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک پیسہ بھی بڑھاتے ہوئے سو بار سوچتی ہے اور غیر ضروری اضافے کو مسترد کرتی ہے ۔ہماری گاڑیاں تو پہلے ہی گھروں میں کھڑی ہیں انہیں تو سٹارٹ کرتے ہوئےبھی ڈر لگتا ہے لیکن اب موٹر سائیکل چلانا بھی مشکل ہو چکا ہے ۔محرم کے موقع پر نیاز دلانے کے لیے ایک دیگ منگوائی تو رکشہ والے نے پانچ سو روپے طلب کئے پوچھا بھائی اتنے پیسے کیوں ؟ تو بولا جناب پٹرول کی قیمت تو ذرا چیک کریں ؟ ایک لیٹر پٹرول تو سٹارٹ کرنے میں ہی لگ جاتا ہے ۔ہماری مزدوری تو وہی دو سو روپے ہی ہے ۔پہلے ہی بجلی کے ریٹ ،شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے ستائی عوام خاصی پریشان نظر آتی ہے ۔انہیں سمجھ نہیں آتی کہ جب پیٹرو لیم کی عالمی قیمتوں میں تاریخی کمی ہے تو ہم یہ اضافہ کیوں کئے جارہے ہیں ؟ حکومت چاہے نو روپے ننانوے پیسے ہی بڑھائے مہنگائی میں اضافہ تو دس روپے کے حساب سے ہو بھی چکا ہے ۔ایک سال قبل گھر تک آنے کےلیے رکشہ ڈرائیورایک سو روپے لیتا تھا اب پانچ سوروپے مانگتا ہے ۔بسوں اور ریلوے کے کرایے ہر مرتبہ مختلف اور بڑھے ہوئےہوتے ہیں ۔پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے اثرات کبھی سامنے نہیں آتے لیکن اضافے کا اعلان ہوتے ہی فوری اضافہ ضرور ہو جاتا ہے ۔
مجھے موجود ہ ریٹ کا اضافہ دیکھ کر اپنا ایک دوست یاد آگیاجو پٹرول پمپ چلاتا تھا ۔ایک مرتبہ بجٹ سے قبل پیٹرولیم پرائس بڑھنے کا شور ہوا تو اس نے اپنی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ ہم سب دوستوں سے ادھار لے کر بڑی تعداد میں پٹرول سٹاک کر لیا ۔توقع کے مطابق تین روپے فی لیٹر اضافہ ہو گیا ۔سب دوستوں نے اضافے پر انہیں مبارکباد دینے کا فیصلہ کیا اور ان کے پاس پہنچے تو وہ مایوس بیٹھے تھے۔ہم نے ریٹ بڑھنے کی مبارک باد پیش کی تو فرمانے لگے یار ! مبارک باد کیسی ؟ میرا تو دو روپے فی لیٹر نقصان ہو گیا ہے ۔ہم نے حیرت سے پوچھا بھائی ریٹ تو تین روپے لیٹر بڑھ گیا ہے اور تمہارے پاس ذخیرہ بھی کافی تھا بھلا نقصان کیسے ہو سکتا ہے ؟وہ غمگین ہو کر بولے یار ! بجٹ میں تجویزتو پانچ روپے فی لیٹر بڑھانے کی تھی لیکن بڑھا صرف تین روپے فی لیٹر ہی ہے تو مجھے دو روپے فی لیٹر کا نقصان ہی ہوا ہے ۔واقعی اس کی بات درست تھی اسے تین روپے بڑھنے کی خوشی نہیں تھی دو روپے کم بڑھنے کا غم ضرور تھا ۔آج بھی پٹرول پمپ مالکان کو دس روپے کی بجائے نو روپے ننانوے پیسے بڑھنے سے ایک پیسے کا دکھ اور نقصان ہی ہوا ہے لیکن وہ چارج تو پورے دس روپے ہی کریں گے ۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں ۔ آٹے کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود بیکری مصنوعات کی قیمتیں ویسی ہی ہیں ۔ہم نے بیکری والے سے پوچھا تو جواب ملا جناب ! بیکری آئٹم صرف ایک آٹے سے ہی نہیں بنتے اس میں گھی چینی اور بےشمار اشیاء کے ساتھ ساتھ مزدوری اور محنت بھی شامل ہوتی ہے ۔جس سےسب کے ریٹ بڑھ چکے ہیں ۔آٹا اگر کچھ کم ہوا ہے تو دوسری اشیاء کی قیمتیں بڑھ بھی چکی ہیں ۔معاملہ تو وہیں کا وہیں ہے
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا عام مہنگائی سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ محرم کے دوران برائیلر مرغی کا ریٹ سات سو روپے کلو جا پہنچاتھا جبکہ کدو سور ٹماٹر جیسی سبزی تیں سو روپے کلو فروخت ہو رہی تھی ۔فروٹ کی قیمتیں بھی یکایک بڑھ چکی تھیں اور وجہ ایک ہی بتائی جاتی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ٹرانسپورٹ مہنگی ہو چکی ہے اور سبزی کی قیمت سے زیادہ اس کو منڈی تک لانے کی ٹرانسپورٹ کی قیمت اور خرچہ زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ بجلی اور پیٹرولیم کے یہ بے ہنگم اضافے اور اسکی وجہ سے مہنگائی کو غریب عوام کیسے برداشت کرے گی ۔جبکہ دور دور تک ریلیف کی کوئی صورتحال بظاہر نظر نہیں آتی ۔ہاں ! ایک راستہ نظر آتا ہے جو معاشی استحکام اور قومی یکجہتی کا راستہ ہے مگر وہ سیاسی استحکام کے نازک بندھن سے جڑا ہوا ہے ۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں