صحت مند سیاسی مزاحمت یا انتشار ؟

“پی ٹی آئی کی مزاحمتی تحریک پر ریاستی حکمت عملی: عمران خان کی رہائی کا بحران”
تحریر:اسلم اعوان

جمعرات 22 اگست کو اسلام آباد کے قریب عمران خان کی رہائی کے لئے احتجاجی ریلی کا اچانک التواءپی ٹی آئی کی مزاحمتی تحریک کے لئے بڑا جھٹکا ثابت ہوا،جس نے کارکنوں کے حوصلے توڑنے کے علاوہ پارٹی قیادت کے اندر اختلافات کی دراڑ کو مزید گہرا کر دیا ۔ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کا وفاقی شہر میں یہ پہلا بڑا جلسہ ہوتا لیکن بدھ کے دن کمشنر نے، عدالتی حکم پہ، ڈی سی کی طرف سے جاری کردہ این او سی کو پی ٹی آئی کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر نقص امن کے لئے خطرات سے منسلک کرتے ہوئے منسوخ کر دیا ۔ بظاہر یہ وزارت داخلہ کی نہایت موثر حکمت عملی دیکھائی دیتی ہے جس میں پی ٹی آئی قیادت کو ٹریپ کرنے کی خاطر پہلے جلسہ کی اجازت دی گئی پھر عین وقت پہ این او سی منسوخ کرکے انہیں”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، کی کفیت سے دوچارکر دیا گیا ۔ ریلی کی قیادت خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کرنا تھی،جو سابق وزیر اعلی پرویز خٹک کی سنہ 2014 والی روایات کودہرانا چاہتے تھے لیکن وفاقی اتھارٹی نے انہیں صوبہ کے سربراہ کی حیثیت سے وفاق پہ چڑھائی کے مضرات و نتائج سے آگاہ کرنے کے علاوہ خیبر پختون خوا پولیس کے آئی جی کی جانب سے گشتی چھٹی کے ذریعے وی آئی پیز کی سکیورٹی پہ مامور پولیس اہلکاروں کو صوبائی حدود سے باہر جانے سے روک کر سخت پیغام پہنچایا ، چنانچہ علی امین گنڈہ پور نے اپنے منصوبہ کو آگے بڑھانے کی راہیں مسدود ہوتی دیکھ کرٍ مجبوراً متذکرہ ریلی کے التواءکی خاطر بیرسٹر گوہر اور اعظم سواتی کی وساطت سے عمران خان کی”رضامندی“حاصل کرکے اپنے اقتدار پہ منڈلاتے خطرات کو وقتی طور پہ ٹال دیا ، انہیں شاید اب پتہ چلا ہو گا کہ پی ٹی آئی کو خیبر پختون خوا کا اقتدار دینے کا مقصد یہی تھا کہ حکومت کھو جانے کے خوف کو بطور ٹول استعمال کرتے ہوئے انتشار اور افراتفری کی کوششوں کو لگام دی جائے گی ۔ جو لوگ علی امین گنڈہ پور کی نفسیات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لئے خان کے مستقبل اور پارٹی کی ساکھ سمیت ہر قیمت دینے کو تیار رہتے ہیں ، اسی لئے اقتدار کی غلام گردشوں میں گنڈہ پور کی شٹل ڈپلومیسی پارٹی کے اندر کئی لاینحل تنازعات کو جنم دیتی رہے گی ۔ لاریب، یہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی تزویری صلاحیت پہ ریاست کا پہلا مہلک حملہ تھا جس نے تنظیمی ڈھانچہ کو گہرا صدمہ پہنچایا ، اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی گرفتاری کے بعد گرانقدر انفارمیشن کے اُس بہاو میں رکاوٹ آئی جو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو زیر زمین کارفرما کارکنان ،ملکی و بین الاقوامی ابلاغی نظام اور بیرون ملک بیٹھے حامیوں سے ہمہ وقت منسلک رکھتا تھا،گویا انفارمیشن شیئرنگ کے فقدان کے باعث پی ٹی آئی کی پیشگی حملہ کرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوئی ہے ،چنانچہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ خان کے لئے فوج،عدلیہ اور انتظامیہ میں بیٹھے حامیوں سے استفادہ کے امکانات محدود ہوتے جائیں گے۔
لیکن اس سب کے باوجود ریاست کے خلاف ٹی ٹی پی کی مسلح مزاحمت اور سیاسی انتشار کے دائرے پھیلتے کیوں جا رہے ہیں ؟ کیا ہمارا ریاستی وجود ازخود کسی ایسے انتشار کا طلبگار ہے جو 78 سالوں کے جمود سے نجات کے لئے مضطرب ہو یا پھر عالمی طاقتیں ہمارے داخلی تضادات کو ٹول بنا کر ہمیں کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگیوں کے آگ کی طرف دھکیلنے کی خاطر متحرک ہیں ۔ بلاشبہ یہی دونوں محرکات اپنی پوری توانائی اور شدت کے ساتھ ہمارے اجتماعی وجود کو وقف اضطراب رکھے ہوئے ہیں ۔ اتنا تو سب جانتے ہوں گے کہ روایتی طور پہ افراتفری کی ضرورت اشرافیہ اور اُن تمام لوگوں کے خلاف غصے سے وابستہ رہی،جو اختیارات اور ملکی وسائل کے بڑے حصہ پہ تصرف رکھتے ہیں ، جس سے عام آدمی کو یہی پیغام ملتا ہے کہ جب ریاست پہ صرف ایک طاقتور گروہ کا قبضہ ہو ، تمام اثر و رسوخ ، عہدے اور دولت انہی پہ مرکوز ہوں اور انہوں نے اپنے طرز عمل سے ہمیں خطرات، شکست، تادیبی کاروائیوں اور غربت سے دو چار کر دیا ہو، لوگوں کے پاس اپنی سانسوں کے سوا کچھ نہ باقی بچا ہو تو یہ سمجھنے میں وہ حق بجانب ہوں گے کہ اپنی بدحال زندگیوں کو دیگر انسانوں کی تفریح طبع میں ضائع کرنے کی بجائے دلیرانہ انداز میں مزاحمت میں جھونک دینا زیادہ بہتر ہے ۔ دوسری جانب بیرونی اثر و نفوذ کے باعث ہماری ریاست کو ایسی پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہے ،جس میں ایک سیاسی جماعت کو مملکت کی سول آبادی کے کچھ حصے کو قانونی طور پر منتخب حکومت کے خلاف مزاحمت پہ اکسانے اور سول آرڈر میں خلل ڈالنے کی منظم کوششوں کے دوران مملکتی ڈھانچہ کے اندر بیٹھے اُن مرعات یافتہ عناصرکی حمایت بھی میسر ہے جو ریاست کی قوت قہرہ کو کند بنانے کی صلاحیت سے بہرور ہیں ، جب ٹوٹ پھوٹ کا عمل بیک وقت سسٹم کے اندر اور باہر سے برپا ہونے لگے تو پھر لیبیا اور بنگلہ دیش کی مانند تخریبی عوامل کو ریگولیٹ کرنا دشوار ہوتا جائے گا ۔

جدید فن حکمرانی کے ماہرین کہتے ہیں، کسی صحت مند جمہوری ماحول میں اگرچہ مزاحمتی نظریہ کو سیاسی فکر کا ایک پہلو سمجھا گیا ،جس کے ذریعے معاشرے کو منظم اور اجتماعی شعورکو نمو فراہم کی جا سکتی ہے لیکن یہی عمل نہایت تیزی کے ساتھ افراتفری اور انتشار کی صورتوں میں ڈھلنے کی رغبت بھی رکھتا ہے ، جس طرح مزاحمتی اقدار کا اظہار جلسے ، جلسوں اور پُرامن احتجاج کی صورت میں سامنے آیا، اسی طرح انارکی کے حربوں میں بھی احتجاج ، بائیکاٹ ، دھرنا ، سول نافرمانی اور بلآخر مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کرنے کے رجحانات پائے جاتے ہیں حالانکہ غیر متشدد مزاحمت (Passive resistance) کو تجرباتی طور پر بڑے سیاسی مقاصد کے حصول میں مسلح جدوجہد سے دوگنا موثر پایا گیا لیکن کسی حقیقی لیڈرشپ کے لئے پُرامن جدوجہد کے دوران پراگندہ طبع ہجوم کو ٹریک پہ رکھنا خاصہ دشوار عمل ہوتا ہے ۔ تاریخی دلچسپی کے لئے یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہو گا کہ موہن چند گاندھی ہمارے برصغیر میں غیرمتشدد مزاحمت کی کلاسیکی مثال سمجھے جاتے ہیں لیکن انہیں بھی ایک متنوع معاشرے میں مزاحمتی عوامل میں توازن قائم رکھنے کی خاطر بلآخر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ بہرحال، مزاحمت کا مطلب عزم کا مقابلہ کرنا ہے یعنی ریاست کی طرف سے جو بتایا جائے اس سے انکار کرنا لیکن جدید ریاستوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاشرے کو منظم کرنے کی بجائے اپنی طاقت کو معمول پہ رکھنے میں بقاء تلاش کرتی ہیں ، یوں ہر جگہ کنٹرول کی کوششں ردعمل کو جنم دیتی ہے چنانچہ ان کی طرف سے اکثریت کے کثیر الجہتی اصول کو نظر انداز کرنے کی پالیسی آخرکار عدم استحکام اور افراتفری کا سبب بنتی ہے ۔ افراتفری معاشرتی دھاروں کا ایسا خودکار رویہ ہے،جو ریاستی نظام کے ارتقاءکی انتہائی حساسیت کے نتیجے میں نمودار ہوتا ہے ۔ انتشار پسندوں کا ماننا یہ ہے کہ دنیا کو مساوی طریقے سے منظم کیا جانا چاہیے مگر جس طرح فرد مساوات میں انصاف ڈھونڈتا ہے،اسی طرح معاشرہ انارکی میں نظم تلاش کرتا ہے ، جدید سٹیٹ کرافٹ کا یہی پہلو افراتفری کے پیچیدہ نظاموں کی ظاہری بے ترتیبی کے بنیادی نمونے پیش کرتا ہے ، حالانکہ لڑائیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں لوگ برابر ہوں ، طاقتور اور کمزور کے مابین جنگیں بہت کم ہوئیں یعنی مساوات ہی فی الحقیقت مقابلے اور تصادم کا محرک بنتی ہے ۔ تاہم اقتصادی طور پر ، پاپولزم اور سیاسی عدم استحکام پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی اور سماجی عدم مساوات میں کمی اہم پالیسی حل ہیں ۔ شاید اسی لئے کیمونزم کے حامی سماجی مساوات کی خاطر کچھ اہم نکات کو پیش نظر رکھتے ہیں جن میں، ریاست کی نفی، سرمایہ داری کاخاتمہ، تعصب کو مٹانا اور جبری تعاون کو رضاکارانہ باہمی امداد سے بدلنے میں خواب تکمیل کی تعبیر (یوٹوپیا) تلاش کرتے ہیں ۔ اس ساری بحث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ افراتفری بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ چند انتشار پسند اپنے آخری مقاصد تک پہنچنے کے لیے افراتفری جیسے ذرائع پر یقین رکھتے ہیں ۔ اگر آپ بین الاقوامی سطح کی سیاست پر نظر ڈالیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انٹیلی جنس سروسز دنیا بھر میں ”افراتفری کے ایجنٹ“ کے طور پر کام کرتی ہیں لیکن کوئی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ وہ انتشار پسند ہیں اور اگر آپ اصرارکریں تو یہی کہیں گے کہ یہ جدید فن حکمرانی کی نظریاتی جہت اور کانفلکٹ مینیجمنٹ کا طریقہ کار ہے۔ اسی طرح ایک انارکیسٹ باآسانی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس لئے ووٹ نہیں دیتا کیونکہ اس سے کرپٹ سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس ووٹ ڈالنے والے انتشار پسند یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کم از کم کچھ تو کرنا چاہئے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ سیاستدانوں سے نفرت کرتے ہیں وہ سیاست بارے زیادہ نہیں جانتے ۔ چنانچہ ہمارے جنوب مغرب میں پائے جانے والے انتشار پسند گروپ ہرگز افراتفری کے ایجنٹ نہیں بلکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ریاست کے نافذالعمل ضوابط کی بجائے خود اپنی مقاصد کو ترجیح اول سمجھتے ہیں لیکن عام لوگوں کی اکثریت افراتفری کے عناصر کو صرف اس وجہ سے غلط سمجھتی ہے کہ ان کے خیالات یکسر مختلف ہیں جس کی وجہ سے وہ مرکزی دھارے سے کٹ کے رہ جاتے ہیں، ایک بار جب مرکزی دھارے نے ان نظریات کو سمجھ لیا تو ہمارے جینے کے طریقے میں بہت زیادہ بہتری آئے گی ۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں