دہشتگرد ہم سب کی موت کنفرم کرکے جنگل سے پھر شاہراہ لوٹ گئے‘ بچ جانےوالا سعید

دہشتگرد بلاخوف و خطر رات 10بجے سے صبح 4بجے تک معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے

لیہ (بیٹھک سپیشل/محمد ندیم قیصر)سانحہ موسیٰ خیل بلوچستان میں دہشت گردوں کی وحشیانہ فائرنگ میں زخمی ہونے کے باوجود معجزانہ طور پر محفوظ رہنے والے پیر جگی چک 170 کے رہائشی سعید احمد کا کہنا ہے کہ تھانہ راڑا شم سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دہشت گرد موت کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے لیکن کئی کلومیٹر تک اندھا دھند فائرنگ کی آواز گونجتی رہی مگر پولیس سمیت دیگر سکیورٹی ادارے والوں میں سے کسی کو گولیوں کی تر تراہٹ نہ سنائی دے سکی اور دہشتگرد بلاخوف و خطر رات 10بجے سے صبح 4بجے تک معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ۔سعید احمد نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک مال بردار ٹرک کے ساتھ تھا میرے ٹرک میں دو پٹھان بھی تھے لیکن ان کی شناختی کارڈ سے تصدیق کرنے کے بعد کچھ بھی نہ کہا گیا۔ سعید احمد نے لیہ پہنچنے پر مقامی میڈیا کے روبرو دہشتگردوں کے چنگل میں پھنس جانے کی اپنی داستان الم سناتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ دو ٹرک اور بھی جائے واردات کے قریب سے گزر رہے تھے کہ اچانک سڑک پر دائیں بائیں سے اچانک گولیاں برسنا شروع ہو گئیں ہم خوفزدہ ضرور ہوئے لیکن ہم نے اپنے ٹرکوں کی سپیڈ بڑھا دی تھوڑی دیر بعد ہمارے ٹرکوں پر براہ راست گولیاں چلائی جانے لگیں فرنٹ ونڈ سکرین پر بھی گولیاں لگیں مگر سکرینز محفوظ رہیں ،ان کی فائرنگ سے جاں بچا کر ہم کچھ دور گئے تھے کہ پنجاب کی ریسکیو والی یونیفارم میں ملبوس افراد کو اپنا ہمدرد سمجھ کر ٹرک روکے ہی تھے کہ ریسکیو یونیفارم والوں نے ہمیں ٹرکوں سے نیچے اتار لیا۔ اور مجھ سمیت سب کی شناخت پوچھی میں نے پنجابی بتایا تو مجھے الگ کردیا اور میرے دیگر پٹھان اور سندھی ساتھیوں کو ٹرک کی طرف واپس بھیج دیا۔ میرے سامنے ہی دہشتگردوں اس روٹ سے گذرنے والی مسافر بسوں اور مال بردار گڈز ٹرانسپورٹ کو روکتے رہے اور پنجابی مسافروں کی شناخت پیریڈ کے بعد انہیں سواریوں سے اتار کر مجھ سمیت سب کو قریبی جنگل میں لے گئے۔ اور وہاں پہنچ کر ہم سب کو ایک لائن میں کھڑا کرکے ہم سب کے ہاتھوں کو رسی سے باندھ دیا اور پھر اندھا دھند گولیاں چلا دین ایک گولی میرے دائیں کندھے کو چھوتی ہو گزر گئی ۔ دہشتگرد ہم سب کی موت کنفرم کر کے جنگل سے دوبارہ شاہراہ کی طرف چلے گئے اور میں دل ہی دل میں اپنی جان بچ جانے پر خوش نہ ہو سکا کیونکہ میرے سامنے 20 سے زائد پنجابیوں کے وحشیانہ فائرنگ سے چھلنی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور میرا کندھا زخمی تھا میں دہشت گردوں کی نظروں سے بچتا ہوا بڑی مشکل سے قریبی پہاڑی کی بلندی تک جا پہنچا ۔ صبح کے وقت ریسکیو ٹیموں نے مجھ تک ان پہنچیں اور مجھے پہلے طبی امداد اور بازو کی سرجری کیلئے قریبی ہسپتال لے جایا گیا اور بعد مجھے میرے گھر روانہ کردیا گیا۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں