غلام قاسم نے دن رات مزدوری کرکے ضمیر اور مرتضی کوجوان کیا

کالعدم تنظیم کے ہاتھوں سے لیہ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ بھائی بھی محفوظ نہ رہ سکے

ہیڈ محبوب (بیٹھک سپیشل/محمد ندیم قیصر) بلوچوں کے حقوق کے نام قائم کالعدم تنظیم کے ہاتھوں سے لیہ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ بھائی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اپنے خاندان کو غربت کی بھٹی سے باہر نکالنے کے لئے چک نمبر 125 ٹی ڈی اے کے رہائشی ضمیر حسین جو پہلے ٹریکٹرز اور پیٹر انجنز کی مرمت کیا کرتا تھا نے چھ ماہ قبل ایک 82 ماڈل مزدا ڈالہ خرید کیا اور سبزی منڈی کے ساتھ منسک ہو گیا جہاں سے اس نے سبزی اور فروٹ خریدنے کے لئے لورالائی جانا شروع کیا۔ضمیر حسین کے تین بھائی اور بھی تھے جن میں سے ایک غلام مرتضیٰ اس کے ساتھ دہشتگردی کے اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جبکہ ایک بھائی فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا ہے جبکہ دوسرا بھائی والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا ہے۔ضمیر کے والد غلام قاسم کا بینادی طور پر تعلق تونسہ شریف کے علاقہ ٹبہ امام سے ہے ذات کے حساب سے وہ دستی (دشتی) بلوچ ہے۔متاثرہ خاندان کے قریبی تعلقدار اور ہمسائے کامران تھند نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ کم و بیش 50 سال قبل غلام قاسم دستی نے کوٹلہ حاجی شاہ، چک نمبر 125 ٹی ڈی اے، لیہ کے قریب واقع ہیڈ محبوب کے قریب میں آ کر سکونت اختیار کی۔ان کا کہنا تھا کہ خاندان کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے غریب خاندان نے روڈ کے ساتھ سرکاری زمین پر دو کمروں کاچھوٹا سا کچا گھر تعمیر کیا اور وہاں رہنا شروع کر دیا۔اس کا کہنا تھا کہ غلام قاسم دن رات محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا یہاں تک کہ بچے بڑے ہو گئے اور غلام قاسم کی اپنے علاقے مین 4 کنال وراثتی زمین نکل آئی تو چند سال پہلے وہ اپنے دو بیٹوں جن میں غلام مرتضی بھی شامل تھا کے ساتھ اپنے آبائی علاقے شفٹ ہو گیا اور وہاں کھیتی باڑی شروع کر دی جبکہ باقی دو بیٹے لیہ میں رہے ،انکا کہنا تھا کہ 32 سالہ ضمیر کی چند سال قبل اپنی کزن سے شادی ہوئی جس سے اس کے تین بچے ہوئے جن میں 5 سالہ زینب، 3 سالہ فہد اور ایک سالہ ثانیہ فاطمہ شامل ہیں جبکہ 22 سالہ غلام مرتضی کی شادی عنقریب متوقع تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی وفات سے چند روز قبل ضمیر حسین لورالائی سے اپنے ڈالے پر سیب لوڈ کر کے لایا تھا اور لیہ کے کالج روڈ پر مارکیٹ کے مقابلے میں سستا بیچ کر جب دوبارہ سیب لینے کے لئے لورالائی جانے لگا تو اپنے چھوٹے بھائی غلام مرتضی کو جو چند دنوں سے تونسہ سے لیہ آیا ہوا تھا یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گیا کہ راستے میں تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آنے لگتی ہے دونوں بھائی باتیں کرتے جائیں گے اور واپس آئیں گے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ دہشت گردوں کی شکل میں موت گھات لگائے بیٹھی تھی۔ضمیر اور غلام مرتضیٰ کی گاڑی کو جب روکا گیا تو دونوں بھائی اپنے بھائی جہانگیرسے فون پر گفتگو کر رہےتھے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں