محبوب کو گھر پکا کراتے‘ ڈالے کی قسطیں چکاتے دہشتگردوں نے آلیا

محبوب حسین کی غربت کی داستان بستی ملاں والی کے اللہ بخش کی داستان سے مختلف نہیں

لیہ (بیٹھک سپیشل/محمد ندیم قیصر)چک نمبر 140 ٹی ڈی اے، لیہ کے رہائشی 45 سالہ محبوب حسین کی غربت کی داستان بستی ملاں والی کے اللہ بخش کی داستان سے مختلف نہیں ہے۔ چند ماہ قبل خریدے گئے ایک چھوٹے ڈالے کی قسطیں چکانےاور گھر پکاکرانے کی حسرت دل میں لئے محبوب حسین دہشتگردی کا نشانہ بن گیا۔ ڈالے پر اٹھنے والے اخراجات ادا نہ ہو سکے اور نہ ہی مکان پختہ ہو سکا مگر وہ ڈالا جسےچلا کرمحبوب حسین نے اپنے چھوٹے چھوٹے خوابوں کو تعبیر دینا تھی اس کو بی ایل اے دہشتگردوں نے آگ لگا کر جلا ڈالا۔روزنامہ بیٹھک سے گفتگو کرتے ہوئے محبوب حسین کے برادر نسبتی سجاد کا کہنا تھا کہ اس کے بہنوئی نے چار پانچ ماہ قبل ایک پرانا ڈالہ خرید کیا جبکہ قبل ازیں وہ کسی اور کی گاڑی چلایا کرتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ 84 ماڈل ڈالے کی قیمت اور اس کو چلنے کے قابل بنانے کے لئے اٹھنے والے اخراجات کا حصہ ادا کر کے بھی ابھی اس کے بہنوئی نے ڈالہ کے مالک اور دیگر لوگوں کے چھ سے سات لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ماہ جب ڈالہ اس قابل ہوا کہ وہ روڈ پر آ سکے تو اس کا بہنوئی بہت خوش تھا اور کہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ کام کر کے وہ سب سے پہلے ڈالے کی خرید اور مرمت پر اٹھنے والے اخراجات ادا کرے گا جس کے بعد وہ گھر توجہ دے گا ان کا کہنا تھا کہ جب پچھلے دنوں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں دو کمرے کے گھر میں پانی کھڑا ہو گیا تو اس نے اپنے بہنوئی کو گھر کی مرمت کا کہا جس پر اسے جواب ملا کہ پہلے لوگوں کے واجبات ادا کرنے ہیں اس کے بعد گھر کی مرمت کرائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ محبوب حسین کے لئے بلوچستان نیا علاقہ نہیں تھا اور وہ وہاں سے پھل لوڈ کر کے لایا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک پٹھان بیوپاری محبوب حسین کے ساتھ ڈالے میں سوار تھا مگر دہشت گردوں نے اسے کچھ نہ کہا اور زندہ چھوڑ دیا۔ان کا کہنا تھا آج کل محبوب حسین زیادہ تر بہاولپور رہتا تھا اور بلوچستان سے فروٹ اور سبزیاں لوڈ کر کے بہاولپور کی منڈی میں ان لوڈ کرتا تھا اور سانحے کی رات بہاولپور سے دو تین اور گاڑیوں کے ہمراہ کوہلو پہنچا جہاں باقی گاڑیوں کے ڈرائیورز کے ساتھ اس نے رات کا کھانا کھایا، کھانے کے بعد باقی ڈرائیوروں نے کوہلو شب بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے بھی کہا کہ صبح ساتھ چلیں گے مگر محبوب حسین نے انہیں بتایا کہ وہ تھکا ہوا ہے اور رات کے کسی پہر لورالائی پہنچ کر وہاں آرام کرے گا اور سکون سے سوئے گا مگر وہ لورلائی نہیں پہنچ سکا اور سکون کرنے کے لئے اسے خاندانی قبرستان میں لا کر دفنا دیا گیا ہے۔محبوب حسین نے اپنے خوابوں کے علاوہ جو اب حسرتوں میں بدل چکے ہیں اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیوہ ماں، چار بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑٰی ہیں جبکہ 7 لاکھ کے قرضے کا اضافی بوجھ الگ سے ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں