سانحہ موسی خیل‘ مزدوروں کو مارو تو دبائو میں صرف پسماندگان آتے ہیں

بلوچستان کےمتعدداضلاع کے لوگوں کی معیشت، تعلیم، صحت ومعاشرت کابڑی حد تک سرائیکی وسیب پر انحصار

ملتان(بیٹھک سپیشل/ محمد ندیم قیصر) 25 اور 26 اگست کی درمیانی رات پنجاب کو بلوچستان سے پنجاب سے ملانے والی قومی شاہرہ 70 جسے این 70 بھی کہا جاتا ہے اورحرف عام میں اسے ملتان-قلعہ سیف اللہ روڈکہتےہیں پر ناکہ بندی کرکے 23 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اگلے روز کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کیجانب سے دعویٰ کیا گیا کہ کوہ سلیمان میں مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کرکے فوج اور خفیہ اداروں کے 20 اہلکاروں کو ہلاک کردیا گیاہے۔ چونکہ ہلاک ہونیوالوں میں زیادہ تعدادسرائیکی وسیب جسے جنوبی پنجاب بھی کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تھی اسلئےروزنامہ’’ بیٹھک‘‘ نے کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے اس دعوے کے حوالے سے جب آزادانہ طور پر تحقیقات کی گئیں تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ بی ایل اے کی جانب سے کیا جانیوالایہ دعویٰ محض لغو اور بے بنیاد ہے۔اس بات میں یقینی طور پر کوئی دوسری رائے نہیں ہےکہ ہلاک ہونیوالوں میں دو سے تین لوگ سکیورٹی ارداوں سے منسلک تھے لیکن ہلاک شدگان کی اکثریت عام شہریوں کی تھی جو بلوچستان کے صوبائی بارڈر کے دوسری طرف کے قریب ترین اضلاع سے تعلق رکھتے تھے اور زیادہ تر تجارت اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں بلوچستان آتے اور جاتے رہتے تھے۔ بی ایل اے کیجانب سے جن لوگوں کو فوج اور خفیہ اداروں کے جان کر قتل کیا گیا ہے ان کے حوالے اتنا کہنا کافی رہے گا کہ ان مظلوموں کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مدد کرنے اور اہلخانہ کیساتھ ہمدردی کے کلمات کا اظہار کرنے کیلئے بھی بڑی حکومتی شخصیت، سرکاری افسر یا سیاستدان موجود نہ تھا۔ یہ سب لوگ یا تو مزدور تھے، یا ان کی گاڑیاں تھیں جن کے ذریعے وہ بلوچستان سے ملتان یا دیگر اضلاع تک اشیا جن میں زیادہ تر خورد و نوش کی اشیا جیسے پھل یا سبزیاں شامل ہوتی تھیں کی ترسیل کرتے تھے اور پنجاب کے قریبی اضلاع سے بھی عموماّّ سامان لیکر بلوچستان جاتے تھے۔یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ بلوچستان کے ایک درجن کے قریب اضلاع جن میں بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، موسیٰ خیل، لورالائی، دکی، قلعہ سیف اللہ وغیرہ شامل ہیں کے لوگوں کی معیشت، تعلیم، صحت یہاں تک کہ معاشرت کا بڑی حد تک سرائیکی وسیب کے نہ صرف ان اضلاع جن کی نسلاّّبڑی آبادی بلوچ اقوام پر مشتمل ہے پر انحصار ہےبلکہ دیگر اضلاع جن میں ملتان سرفہرست ہے کیساتھ بھی تجارتی اور معاشرتی روابط ہیں۔ملتان اور ڈیرہ غازیخان کے لوگ بلوچستان کے ان اضلاع کے لوگوں کے نہ صرف معاشی پارٹنرز ہیں بلکہ معاشرتی پارٹنرز بھی ہیں خاص طور پرجب بلوچستان کے ان اضلاع میں سردی اپنے پنجے گاڑتی ہے تو ان علاقوں کےلوگوں کی اچھی خاصی تعداد ان 2اضلاع میں شفٹ ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سارے دیگر لوگ یہاں اپنے بچوں کی تعلیم اور اپنے روزگار کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں۔ اسی طرح ڈیرہ غازیخان بالخصوص تونسہ شریف کے بلوچستان کیساتھ تاریخی، معائشی اور معاشرتی رشتے ہیں جبکہ مسوری بگٹی اور کلپر بگٹی قبائل نے اکبر بگٹی کی مخالفت کیوجہ سے اکبر بگٹی کی زندگی کے آخری ایام جلا وطنی میں ملتان، راجن پور اورڈیرہ غازیخان میں گزارے اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد مشرف دور میں حکومت نے ان بگٹی قبائل کو واپس ڈیرہ بگٹی میں بسانا شروع کیا یہاں تک کہ آج بھی ان بگٹی قبائل کے لوگ سرائیکی وسیب کے ان اضلاع میں قیام پذیر ہیں۔ افغانستان اور ایرانی بارڈر سے لیکر سرائیکی وسیب کے اضلاع کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر اضلاع این 70 کے ذریعے بلوچستان سے جڑے ہوئے ہیں یہ ایک بڑا تجارتی روٹ ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں گاڑیاں تجارتی سامان اور مسافروں کو لیکر ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک پہنچتی ہیں این 70 کم و بیش 440 کلومیٹر طویل سڑک ہے جو ملتان سے شروع ہو کر راستے میں دونوں صوبوں کے درجنوں شہروں کو جوڑتی ہوئی قلعہ سیف اللہ تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہے این اے 70 کا 254 کلومیٹر حصہ بلوچستان میں اور 186 کلومیٹر پنجاب میں واقع ہے۔اس شاہرہ کا اچھا خاصا حصہ کوہ سلیمان کےپہاڑی سلسلےسے گزرتا ہے اور دونوں صوبوں میں بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہےکسی زمانے میں یہ روٹ افغانستان اور ایران سے دہلی جانے والا مختصر روٹ ترین ہوتا تھا جو کوہ سلیمان کی رودکوہیوں کیساتھ سفرکرتا دریائے سندھ تک پہنچتاتھا۔ اس وقت بھی ایران اورخاص طورپر افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی تلواریں خون سے ٹپکٹی آتی اور جاتی تھیں اور آج بھی اس روٹ پر زخموں سے چور تڑپتے جسم لاشوں میں تبدیل کر دئیے گئے ہیں اور افسوس کہ بیگناہ ہلاک شدگان کی لاشوں کو بی ایل اے اپنی سیاست کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے اور مرنے کے بعد ان کوجاسوس اور جانے کیا کچھ نہیں کہا جا رہاجبکہ حقیقت میں ان غربت کے ماروں کی تجہیز و تکفین بھی ان کے ورثا کیلئے روزکی روٹی کے حصول کی طرح کسی بڑے مسئلے سے کم نہیں ہے۔اپنی کسی محرومی کا انتقام کسی دوسرے صوبے اور خطے کے مظلوم اور محروم لوگوں سے لینے کی کسی بھی توجیح کو دنیا کے کسی کونے میں بسنے اور درد دل رکھنے والا انسان تسلیم نہیں کر سکتا جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے بی ایل اے کا جھوٹ طشت ازم بام ہو چکا ہے غریب گھرانوں کے واحد کفیلوں کو قتل کر کے فتح کے شادیانے کی بجائے بے گناہ لوگوں کی قتل و غارت گری اور جھوٹے پروپگنڈے پر نادم ہونا چاہیے اور اس سے باز آ جانا چاہیے ۔ دوسری جانب سانحہ موسیٰ خیل کو ایک ہفتہ گذر گیا لیکن اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کو سونے میں تولنے والی پنجاب اوروفاقی دونوں حکومتوں کیطرف سےان شہداء کیلئے کسی قسم کی مالی امداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تخریبی اور دہشت گردی کے سانحات میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ہمیشہ صوبہ اور وفاقی حکومت کی طرف سے زخمیوں اور جاں بحق ہونیوالوں کے ورثاء کی مالی امداد کیلئے فی کس لاکھوں کے عطیات کے چیک بلاتاخیر تقسیم کیے جانے کی روایت رہی ہے لیکن سانحہ موسیٰ خیل کے موقع پر مالی امداد کا چیک بلکہ تجہیزو تکفین کیلئے ہزاروں روپے کی امداد عطیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ شہداء کے سوگوار خاندانوں کے غمزدہ ورثاء تو سرکاری افسران اور ووٹ کی سیاست کرنیوالے عوامی نمائندوں کی شہداء کے جنازے اور تدفین میں عدم شرکت پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔ورثاء کا کہنا تھا کہ شہداء کی میتیں گھروں میں پہنچنے پر اسسٹنٹ کمشنر تحصیلدار اور پٹواری شہداء بارے معلومات لینے کیلئے آئے لیکن نماز جنازہ میں شرکت کئے بغیر چلے گئے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں