صدر کی تعیناتی ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں نئے صدر کی تعیناتی

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)  پرو وائس چانسلر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ریکٹر امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض سعودی عرب پروفیسر ڈاکٹر احمد بن سالم العامری کی سربراہی میں یونیورسٹی صدر کی تعیناتی کے لئے قائم عبوری کمیٹی نے امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کے نام کی منظوری دیدی۔

امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد صدر تعینات

صدر کی تعیناتیڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد
ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد

ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد امام محمد بن سعود یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں انہوں نے دماغی صحت اور سائیکو تھراپی میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے جبکہ ان کے پاس انتظامی معاملات کو چلانے کا تجربہ بھی ہے وہ امام یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس آفئیرز کے ڈین ہیں۔

ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد نے اپنی پی ایچ ڈی برطانیہ کی السٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جولین لیسلی کے زیرنگرانی کی ہے اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم کے دوران ڈاکٹر احمد نے دماغی امراض کے علاج میں مہارت رکھنے والے ریاض کے ایک ہسپتال میں چھ ماہ تک  خدمات سرانجام دیں جبکہ بطور بچوں کے ماہر نفسیات گریجویشن کے بعد  چھ سال ان بچوں کے لئے کام کیا جو گونگے بہرے اور ذہنی طور پر معذور تھے۔ ڈاکٹر احمد تین سال تک امام محمد ابن سعود یونیورسٹی میں مختلف ماڈیولز جیسے ایجوکیشنل، ڈویلپمنٹل اور کونسلنگ سائیکالوجی پڑھاتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر احمد اور ڈاکٹر جولین لیسلی نے فروری دو ہزار سولہ میں برطانیہ میں ہونے والی آٹھویں سعودی طلبا کانفرنس کے لئے “سعودی عرب میں بدسلوکی کے شکار بچوں کے ممکنہ نفسیاتی مسائل کا جائزہ” کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک سٹڈی بیسڈ مقالہ تحریر کیا جس سعودی عرب میں بدسلوکی کے شکار بچوں پر نفسیاتی اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس سٹڈی کے لئے ڈاکٹر احمد نے نو سعودی خاندانوں کے انتیس بچوں اور ان کے آٹھ والدین یا سرپرستوں کے انٹرویو کئے گئے تھے بچوں سے دو سیشنز میں بات کی گئی تھی سٹڈی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کو مختلف اقسام کی بے چینی (انزائٹی) کا سامنا تھا جس میں سرفہرست جنرلائزڈ اینزائٹی ڈس آرڈر کا مسئلہ تھا۔ بچوں میں جذباتی اور برتاؤ کے مسائل بھی درپیش تھے جن میں جارحانہ رویے اور بے چینی (انزائٹی) یا افسردگی (ڈپریشن) جیسے مسائل شامل تھے۔

تعلیمی اور تدریسی حلقوں نے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کی بطور صدر یونیورسٹی تعیناتی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب مفاد پرست ٹولے اہم عہدوں پر اپنے مطلب کی تعیناتیاں کروا کر یونیورسٹی پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں  ڈاکٹر احمد اپنی تدریسی، تحقیقاتی، انتظامی اور بطور ماہر نفسیات صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یونیورسٹی کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں گے۔

ذرائع کے مطابق یونیورسٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے دھڑے بازی اور ذاتی مفادات کی جنگ نے یونیورسٹی کو انتظامی بحران میں دھکیل دیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے بطور ممبر بورڈ آف ٹرسٹیز دسمبر دو ہزار تئیس میں ہونے والی میٹنگ میں رویہ نہایت تضحیک آمیز تھا جس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامی بحران کا شکار ہو گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسی بورڈ آف ٹرسٹیز کے محض ایک ممبر تھے لیکن یونیورسٹی کے معاملات کو ہائی جیک کر کے اپنے قریبی دوست ڈاکٹر مشتاق کی مرضی سے چلانا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے بطور چیف جسٹس یونیورسٹی انتظامیہ کو مجبور کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ ان کی خواہشات پر مبنی بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ کے  منٹس جاری کریں تاہم جب مجبورا یونیورسٹی انتظامیہ نے وہ منٹس منظوری کے لئے ممبران کو بھیجے تو تمام ممبران نے ان منٹس کو ماننے سے انکار کیا اور اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو سابق چیف جسٹس کے روئیے کی شکایت کرتے ہوئے ناراضگی کی ای میلز کئیں۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی آرڈیننس میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ یونیورسٹی کے صدر کی تعیناتی مسابقتی عمل کے ذریعے ہو گی تاہم ڈاکٹر مشتاق اور ان کے گروپ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور موجودہ عبوری ریکٹر ڈاکٹر مختار، سیکریٹری منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن محی الدین وانی اور سابق چیف جسٹس سے ساز باز کرکے یونیورسٹی انتظامیہ خاص طور پر سعودی حکام پر دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ یونیورسٹی صدر کی تعیناتی مسابقتی عمل کے تحت کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے بغیر کسی قانون اور ضابطے کے  یونیورسٹی ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک جو کہ باقاعدہ مسابقتی عمل کے ذریعے تعینات ہوئیں تھیں کو محض اس وجہ سے معطل کر دیا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس کی خواہش پر بورڈ آف ٹرسٹیز کے منٹس جاری کر کے یونیورسٹی ڈاکٹر مشتاق اور ان کے گروپ  کی جھولی میں ڈالنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ڈاکٹر ثمینہ ملک ڈاکٹر مشتاق کی بطور اسسٹنٹ پروفیسر غیر قانونی بحالی کی راہ میں بھی روکاوٹ تھیں

ان کا کہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز ڈاکٹر مشتاق کو بحال نہیں کر سکتا کیونکہ ایک تو ان کی نوکری سے برخاستگی میرٹ پر ہوئی تھی دوسرے کچھ عدالتی فیصلوں میں ان کی برخاستگی کو درست رار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مشتاق اور ان کے گروپ کو سعودی صدر کی موجودگی میں یونیورسٹی میں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے یونیورسٹی پر مکمل قبضہ جمانے کے لئے وہ ہر حال میں مسابقتی عمل کے ذریعے یونیورسٹی صدر کی تعیناتی چاہتے تاکہ صدر کے عہدے پر بھی ان کا ہی کوئی کارندہ یا وہ خود تعینات ہو سکیں کیونکہ یونیورسٹی آرڈیننس کے مطابق یونیورسٹی کے تمام انتظامی معاملات صدر کے پاس ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مشتاق کے گروپ کے لوگ یونیورسٹی کے چھوٹے سے چھوٹے عہدے سے لیکر بڑے سے بڑے اہم عہدے پر تعینات ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کو اپنی مٹھی میں لیا ہوا ہے اور ان کے راستے کی سب سے بڑی روکاٹ سعودی صدر ہوتا ہے اس لئے وہ اس رکاوٹ کے درپے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار کو ریکٹر بنوانے میں ڈاکٹر مشتاق اور موجودہ وفاقی سیکرٹری فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ محی الدین وانی کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ان تینوں نے مل کر سابق چیف جسٹس کو ڈاکٹر ثمنیہ ملک کے خلاف بھڑکایا تھا لیکن ریکٹر بنتے ہی ڈاکٹر مختار کو اندازہ ہو گیا کہ اگر انہوں نے یونیورسٹی کا مستقل ریکٹر بننا ہے تو ڈاکٹر مشتاق کو بحال نہیں ہونے دینا کیونکہ ڈاکٹر مشتاق بحال ہوتے ہی یونیورسٹی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور وہ ریکٹر ہوتے ہوئے بھی غیر موثر رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا ڈاکٹر مختار کا اس بات کا احساس دلانے میں ایک نائب صدر کا ہاتھ ہے جو کہ ڈاکٹر مختار کے ان کے ریکٹر بننے سے پہلے یونیورسٹی میں ان کے نمائندے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی معاملات کو درست سمت پر لانے کے لئے سعودی صدر کی تعیناتی، ڈاکٹر مشتاق کا یونیورسٹی سے باہر رہنا اور معطل شدہ ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ کی بحالی سے مشروط ہے ورنہ انتظامی، مالی اور تعلیمی حوالوں سے دیوالیہ پن کا شکار ہو جائے گی لہذا صدر پاکستان آصف علی زرداری جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں کو خصوصی طور پر یونیورسٹی کے معاملات کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ عالمی سطح کا تعلیمی ادارہ تباہ ہونے سے بچ سکے۔

اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب عبوری ریکٹر ڈاکٹر مختار، ڈاکٹر مشتاق اور وفاقی سیکریٹری فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ محی الدین وانی کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔

مزید پڑھیں

ملک کے بیشتر علاقوں میں سرد موسم اور جزوی ابر آلود کی پیشگوئی

یوٹیوب کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں