ڈاکٹر مختار انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی پر پنجے گاڑنے کےلیے متحرک

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی صدر کی تعیناتی: شفافیت یا سیاست؟

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ممکنہ طور پر ہائر ایجوکیشن کیمشن کی چیئرمین شپ سے ہٹائے جانے کے خوف کے پیش نظر ڈاکٹر مختار انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی پر اپنے پنجے گاڑنے کے لئے متحرک ہو گئے۔ سعودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی صدر کی فوری تعیناتی کے لئے بھاگ دوڑ شروع، سرچ/ہیڈ ہنٹنگ کمیٹی کی تشکیل، محدود پیمانے پر بغیر مشتہر کئے درخواستیں طلب۔ دس جنوری 2025 کو ڈپٹی ڈائریکٹر ہیومن ریسورس منیجمنٹ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ثاقب رشید کی جانب سے نکالے جانے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز نے 23 دسمبر کو ہونے والے اپنے 16ویں اجلاس میں ہیڈ ہنٹنگ کمیٹی تشکیل دیکر یونیورسٹی صدر کی 30 ورکنگ دنوں میں سخت اور شفاف عمل کے ذریعے تعیناتی کی ہدایت جاری کی ہے کمیٹی کے سربراہ یونیورسٹی کے پرو چانسلر ڈاکٹر احمد بن سالم العامری ہیں جبکہ ممبران میں وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین احمد وانی، ایکٹنگ ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، چیئرمین ایچ ای سی یا اس کا کوئی نمائندہ اور صدر ام القرا یونیورسٹی مکہ، سعودی عرب پروفیسر ڈاکٹر المعدی بن محمد المذہب شامل ہیں جبکہ یونیورسٹی نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان کمیٹی کے سیکریٹری مقرر کئے گئے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی قومی اور عالمی سطح کے بہترین امیدواروں پر مشتمل پینل کی تشکیل کا کام انٹرویو کر کے (اگر ضروری ہوئے) مکمل کرے گی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی اگلی میٹنگ میں غور اور منطوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔اس نوٹیفیکیشن کے بعد امیدواروں کے لئے ایک پرفارما بنایا گیا جس میں امیدوار کے لئے جو کریٹیریا تیار کیا گیا اس کے مطابق امیدوار مسلمان ہو درخواست جمع کروانے کے وقت اس کی عمر 65 سال سے زائد نہ ہو، ایچ ای سی یا یونیسکو کے کسی تصدیق شدہ ادارے سے پی ایچ ڈی ہو اور ریسرچ، مینجمنٹ لیڈرشپ پوزیشن اور اعلی تعلیم دینے کا تجربہ رکھتا ہو۔پرفارمے میں واضح کیا گیا کہ کمیٹی صرف شارٹ لسٹڈ انتہائی قابل امیدواروں کا انٹرویو کرے گی۔
اس بیچ 20 جنوری کو ڈائریکٹر کوآرڈینیشن ڈویژن ایچ ای سی شہزاد عباسی کی جانب سے چند لوگوں کو خانہ پری کے طور پر ایک میل بھیجی جاتی ہے جس میں انہیں کہا جاتا ہے کہ اس میل کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیں تاکہ اہل اور خواہشمند امیدوار پرفارما پر اور متعلقہ ڈاکومنٹس لگا کر ای میل کے ذریعے ہی 22 جنوری تک اپلائی کر سکیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آرڈیننس 1985 کے مطابق یونیورسٹی صدر کی تعیناتی یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز، ریکٹر کی جانب سے سفارش کردہ پینل میں سے کرے گا آرڈیننس نے کے مطابق یونیورسٹی صدر بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے طئے کئے گئے قواعد و ضوابط کے تحت چار سال تک اپنے فرائض سرانجام دے گاذرائع کے مطابق یونیورسٹی آرڈیننس کہیں بھی بورڈ آف ٹرسٹیز کو اس بات کا پابند نہیں بناتا کہ وہ صدر کی تعیناتی کسی مسابقاتی عمل کے ذریعے کرے اور نہ ہی ریکٹر کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ پینل کی تشکیل کسی مسابقاتی عمل کے ذریعے کرے گا بلکہ ریکٹر کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ تمام وہ فرائض سرانجام دے گا جو چانسلر، پروچانسلر یا بورڈ آف ٹرسٹیز اسے سونپے گا تاہم وزارت تعلیم کے سیکریٹری محی الدین وانی، ڈاکتر مختار، ڈاکٹر مشتاق اور اس کے گروپ کے لوگ بشمول سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور قبلہ ایاز سعودیوں کو دباو میں لانے کے لئے اس بات پر زور دیتے رہے کہ صدر کی تعیناتی مسابقتی عمل سے کی جائے اور اب جبکہ ڈاکٹر مختار کو مستقل ریکٹر بننے کے لئے سعودیوں کی حمایت درکار ہے مسابقتی عمل کی خانہ پوری کی جا رہی ہےواضح رہے کہںماضی میں سعودی حکومت کی جانب سے بھیجے والے نام کی منظوری چانسلر یعنی صدر مملکت دے دیا کرتے تھے۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر مختار کے پاس وقت بہت کم ہے اور معاملات کو اپنے حق میں کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے جبکہ دوسری جانب اسے ڈاکٹر مشتاق گروپ کی مخالفت کا سامنا ہے جو کہ انتہاء پسند مذہبی نظریات رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہے اور آج کل سعودیوں کی حمایت سے محروم ہو چکا ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی وجہ ڈاکٹر مشتاق کی یونیورسٹی کے سابق سعودی صدور کے ساتھ مخاصمانہ رویئے اور دوسری اہم وجہ کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی عرب کو ایک انتہاء پسند مذہبی ریاست سے ایک موڈریٹ ریاست میں تبدیل کرنے کا فیصلہ اور اقدامات ہیںان کا کہنا تھا یونیورسٹی کا نیا سعودی صدر کسی صورت ڈاکٹر مشتاق گروپ کی شکل میں یونیورسٹی میں موجود انتہاء پسند عناصر کو اپنے قریب نہیں آنے دے گا اور ایسے لوگوں سے فاصلہ برقرار رکھے گا تاکہ کراؤن پرنس کی پالیسی اور فیصلے کی نفی نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے یونیورسٹی سے نو ماہ تک غیر حاضر رہنے کی وجہ سے نکالے جانے والے اپنے دوست ڈاکٹر مشتاق کی خوشنودی کے لئے دئیے جانے غیر قانونی احکامات نے یونیورسٹی کو انتظامی اور مالی بحرانوں کا شکار کر دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈاکٹر مشتاق، فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ اور موجودہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار اپنے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے ایک پیج ہر آ گئے تھے اور ایک پیج پر ہونے کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹر مختار جو آج کل ڈاکتر مشتاق کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی بحالی کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی ممکنہ خرابی سے جوڑتا ہے کافی بنا کر اپنے ہاتھ سے ڈاکٹر مشتاق کو پیش کیا کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ڈاکٹر مشتاق کی یونیورسٹی سے برطرفی میرٹ پر ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اس وقت اس برطرفی کو ڈاکٹر مشتاق کے ساتھ زیادتی قرار دیتے تھے اور ڈاکٹر مشتاق کی طرح چیف جسٹس فائز عیسی کو ڈاکٹر ثمینہ ملک کے خلاف بریف کرتے رہے انہوں نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس کی جانب سے ایک مستقل ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو غیر قانونی طور معطل کرنے کے عمل نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اس وقت دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے جس کے دو ریکٹر ہیں جن میں سے ایک مسابقتی عمل کے نتیجے میں میرٹ پر تعینات ہونے والی ڈاکٹر ثمینہ ملک ہیں جنہیں غیرقانونی عدالتی حکم کے تحت معطل کر دیا گیا ہے جبکہ دوسرے ڈاکٹر مختار ہیں جو غیر قانونی عدالتی حکم کے نتیجے میں ریکٹر کا عارضی چاج سنبھالے ہوئے ہیں۔ اپنے فیصلے میں جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کی جانب سے جمع کرائی گئے بیانات جنہیں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی حمایت بھی حاصل ہے یونیورسٹی کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں اور یونیورسٹی آرڈیننس کی بار بار خلاف ورزیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔چیف جج کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک کی جانب سے ایک تحریری بیان جس پر یونیورسٹی لیگل ایڈوائزر ریحان الدین خان گولڑا کے دستخط ہیں میں یونیورسٹی کو غیر سرکاری یونیورسٹی قرار دیا گیا تاہم یہ دعویٰ یونیورسٹی آرڈیننس کے منافی ہے لہذا یہ دعویٰ ڈاکٹر ثمینہ ملک اور لیگل ایڈوائزر کی صلاحیتوں پر شدید شبہات پیدا کرتا ہے اور اس بارے بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ آیا یہ دونوں اپنی اپنی پوزیشنز پر مزید تعینات رہنے کے اہل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک اور لیگل ایڈوائزر کی جانب سے دائر کردہ ایک سی ایم اے کے مندرجات بھی یونیورسٹی کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتے اور مطلوبہ معلومات بھی فراہم نہیں کرتے بلکہ ذاتی مفادات کے لئے الٹا عدالت کو سکینڈلائز کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت (وزارت) اور (ڈاکٹر مختار کی سربراہی والی) ایچ ای سی نے جس انداز میں یونیورسٹی کو چلایا جا رہا ہے اس پر سنجیدہ تحفظات اٹھائے ہیں بلکہ ایچ ای سی نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک ایک ہی شہر میں ہونے کے باوجود چیئرمین ایچ ای سی (جہاں پناہ) کی جانب سے طلب کئے گئے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتیں۔حیران کن طور پر سابق چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں تو وفاقی حکومت کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا کہا کہ آیا حکومت بطور ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ کی تعیناتی برقرار رکھنا چاہتی ہے یا پھر ان کی جگہ کوئی نیا ریکٹر تعینات کرتی ہے جبکہ کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر ثمینہ کو استعفی دینے کا کہتے رہے لیکن جب فیصلہ لکھا تو خود ہی ڈاکٹر ثمینہ کو معطل کر دیا۔ذرائع کے مطابق اپنے فیصلے میں سابق چیف جسٹس نے جو چارج شیٹ ڈاکٹر ثمینہ ملک کے خلاف تیار کی حقیقت میں وہ تمام معاملات ریکٹر کی بجائے یونیورسٹی صدر سے متعلقہ تھے لیکن چونکہ ڈاکٹر ثمینہ ایک آسان ٹارگٹ تھیں اور ڈاکٹر مشتاق سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک نے انہیں میرٹ پر ہٹانے جانے کے برخلاف ان کی حمایت نہیں کی لہذا ان کو ہٹوا کر ڈاکٹر مختار کو چارج دلوا دیا جائے جو ایچ ای سی میں اپنی مبینہ غیر قانونی تعیناتی کو عدالت میں چیلنج ہونے کی وجہ سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر بن کر اپنے مستقل کو آسودہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور یونیورسٹی میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جائے ۔
یوں ڈاکٹر ثمینہ ملک کا پتہ کاٹ دیا گیا اور عدالتی احکامات کا سہارا لیتے ہوئے ان کی جگہ ڈاکٹر مختار کے عبوری ریکٹر کے آرڈر جاری کروا لئے گئے جس میں وفاقی سیکریٹری تعلیم و تربیت محی الدین وانی نے بھرپور معاونت فراہم کی اور حیران کن طور پر عبوری ریکٹر کا جو آرڈر جاری کیا اس میں عبوری چارج کی مدت کا ذکر ہی نہیں کیا گیا تاکہ جب تک ڈاکتر مختار اپنی مستقل ریکٹر تعیناتی کے اسباب اور ماحول پیدا نہیں کر لیتا وہ ریکٹر کا عبوری چارج سنبھالے رہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر مختار نے یونیورسٹی کے مظبوط دھڑوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر غیر قانونی بھرتیوں کا بازار بھی گرم کر دیا اور تمام مشتہر شدہ آسامیوں پر مظبوط دھڑوں کے لوگوں کو بھرتی کر کے یونیورسٹی کے اندر سے اپنے خلاف مخالفت ہو حمایت میں بدلنے کی کوشش کی ہے یوں میرٹ کی پامالی کر کے ہر ایک اسامی پر مختلف دھڑوں سے مربوط لوگ بھرتی کئے گئے ہیں انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار اور محی الدین وانی کا گٹھ جوڑ یونیورسٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے تعلیمی حلقوں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں سے مطالبہ کیا کہ صورتحال کا نوٹس لیکر ڈاکٹر مختار اور محی الدین وانی کے غیر قانونی اقدامات کو روکیں تاکہ یونیورسٹی میں موجود انتظامی بے یقینی اور چند مفاد پرست عناصر کی جانب سے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو صدر کی تعیناتی کے حوالے سے بلیک میل کئے جانے کے سلسلے کا خاتمہ ہو۔ روزنامہ بیٹھک نے اس سلسلے میں جب ڈاکٹر مختار، محی الدین وانی اور ڈاکٹر مشتاق کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں