عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ،ڈی جی پی ایچ اے کے ایماء پرسی پی او کی سرکاری رہائشگاہ پر تشہیری بورڈ آویزاں

“تشہری بورڈ ملتان: سرکاری عمارات پر غیر قانونی پبلسٹی کی حقیقت”

ملتان (بیٹھک انوسٹیگیشن سیل) سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی آصف روف کی ایما پر سٹی پولیس آفیسر ملتان صادق علی ڈوگر نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر تشہری بورڈ لگا لیا۔ ضلعی پولیس سربراہ کی شہر کے مختلف علاقوں میں مزید بورڈ لگانے کی تیاریاں، جلد مزید بورڈ لگنے کے امکانات۔ ذرائع کے مطابق کرپشن کنگ ڈی جی پی ایچ اے آصف روف نہ صرف آوٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے بلکہ بااثر لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مخلتف پارکس اور گرین بیلٹس پر غیر قانونی طور پر دکانیں بنا کر کمرشل مقصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت بھی دے رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آصف روف نے ایک طرف اوٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے تو دوسری طرف اسے بااثر لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال میں لا رہا ہے ان کا کہنا تھا اس وقت ملتان کا ایک بڑا سیاسی گھرانہ گیلانی خاندان آصف روف کی پشت پناہی کر رہا ہے کیونکہ آصف روف نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دست راست سابق ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر جاوید کو پورے شہر میں تشہری بورڈز لگانے کی اجازت دے رکھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سابق ایم پی اے جاوید صدیقی ملتان کے ایک بڑے ایڈورٹائزنگ گروپ سائن وے گروپ کا پارٹنر ہے جس کے مالک کاشف نیازی اور آصف نیازی دو بھائی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سائن وے گروپ مختلف فرمز/کمپنیز کے نام سے کام کرتا ہے جس میں سائن وے ایڈورٹائزنگ اور پاکستان گرافکس سرفہرست ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹی پولیس آفیسر کی ایس پی چوک پر واقع سرکاری رہائش گاہ پر لگنے والا بورڈ بھی سائن وے گروپ کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مخلتف ایڈورٹائزنگ کمپنیز کے مالکان جن میں سائن وے گروپ سرفہرست ہے شہر کی بااثر شخصیات کو پارٹنر بنا کر پبلسٹی بورڈ لگواتے ہیں اور بااثر شخصیات کی خوشنودی کے لئے پی ایچ اے حکام نہ صرف غیر قانونی طور پر لگنے والے بورڈز کے خلاف کاروائی نہیں کرتے بلکہ ان کے سہولت کار بن جاتے ہیں اور اکثر اوقات ان کے پارٹنرز بھی ہوتے ہیں یوں جن لوگوں نے کاروائی کرنی ہوتی ہے وہ بااثر شخصیات کی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شہر میں اچانک سے بورڈ لگتا ہے اس پر یوسف رضا گیلانی اور ان کے بچوں یا کسی دوسری سیاسی شخصیت کی تصاویر لگ جاتی ہیں کچھ عرصہ تک یہ بورڈ ایسے رہتے ہیں پھر وہاں پر کاروبار شروع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ بورڈ کسی کے لئے بھی نیا نہیں ہوتا اس لئے کوئی یہ اعتراض نہیں کرتا کہ اسے کمرشل مقاصد کے لئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ پی ایچ اے حکام جان بوجھ کر فرضی کاروائی کرنے پہنچ جاتے ہیں جس پر گیلانی ہاوس یا کسی دیگر سیاسی یا با اثر شخصیت کا فون آ جاتا ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو کہہ دیں جس کے بعد کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو فون چلا جاتا ہے اور پھر کوئی آنکھ اٹھا کر بھی ان بورڈز کو نہیں دیکھ سکتا انہوں نے بتایا کہ ایسے بورڈز مسلم لیگ ن کے لوگوں نے بھی لگوا رکھے ہیں اور شہر کی دیگر کئی دوسری بااثر شخصیات نے بھی۔
انہوں نے بتایا کہ نیازی برادران کے ذریعے سی پی او ہاوس پر پبلسٹی بورڈ لگانے کا مشورہ بھی ڈی جی پی ایچ اے آصف روف کے دماغ کی اختراع ہے جس کی سی پی او صادق ڈوگر حامی بھر لیتا ہےانہوں نے بتایا کہ سی پی او ہاوس پر لگنے والا بورڈ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، آصف روف نے اپنے عملے کی مدد سے آٹھ، دس اور لوکیشنز بھی سی پی او صادق ڈوگر کو تجویز کی ہیں جہاں بورڈز لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 5 مئی 2016 کو پبلک پراپرٹیز پر کسی بھی قسم کی تشہر پر پابندی لگا دی تھی جس کے بعد پورے ملک کی پبلک پراپرٹیز سے پبلسٹی مواد اور بورڈز ہٹا دیئے گئے تھے تاہم آصف روف کی بطور ڈی جی پی ایچ اے ملتان تعیناتی کے بعد اب ایک مرتبہ پھر سے شہر کی پبلک پراپرٹیز پر بڑے پیمانے پر بورڈز اور دیگر پبلسٹی مواد لگنا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح کینٹونمنٹ بورڈ حکام بھی غیر قانونی طور پر کینٹ ایریا میں دھڑا دھڑ بورڈز اور دیگر پبلسٹی مواد لگوا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے ڈاکٹر جاوید صدیقی کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شہر میں کم و بیش چودہ پندرہ بورڈز لگوائے ہوئے ہیں جن کی وہ پی ایچ اے کو فیسیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صرف سائن وے گروپ کے ساتھ ان کے کاروباری معاملات نہیں ہیں بلکہ ایسی چھ سات کمپنیاں ہیں جن کے ساتھ ان کاروباری معاملات ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں ان کے ملکیتی بورڈ رینٹ اوٹ کروانے میں مدد دیتی ہیںان کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ پی ایچ اے کو فیسیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں اس لئے انہیں سفارشی فون کرنے یا کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ترجمان گیلانی ہاوس رانا یعقوب کا کہنا تھا گیلانی خاندان کا تشہری بورڈز کی تنصیب کروانے کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا کہنا تھا اگر کبھی پبلسٹی کروانے کی ضرورت ہو تو کسی ایڈورٹائزنگ کمپنی سے رابطہ کیا جاتا ہے یا پھر سپورٹرز اپنے طور پر پبلسٹی کرواتے ہیں اس لئے ایسے معاملے سے گیلانی خاندان کا کوئی تعلق نہیں ہےانہوں نے بتایا کہ گیلانی خاندان کے کسی فرد نے یا گیلانی ہاوس سے کبھی بھی پی ایچ اے کے حکام کو کسی غیر قانونی بورڈ کے سلسلے میں نہ تو فون کیا گیا اور نہ ہی زبانی کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ پی ایچ اے حکام ایسا کوئی غیرقانونی کام کر رہے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں جب روزنامہ بیٹھک نے ڈی جی پی ایچ اے آصف روف سے موقف کے لئے رابطہ کیا تو اس نے موقف دینے کی بجائے موقف کے لئے بھیجا جانے والا میسج سٹی پولیس آفیسر صادق ڈوگر کو بھیج دیا جس پر پولیس ترجمان نے روزنامہ بیٹھک سے رابطہ کر کے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں جن مقامات پر بل بورڈز کی تنصیب منع ہے، ان میں عوامی مقامات جیسے کہ سڑکیں، فٹ پاتھ، پل، گرین بیلٹس، اور چوراہے شامل ہیں جبکہ سی پی او ہاؤس کوئی عوامی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سرکاری عمارت ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ (سی پی او کی سرکاری رہائش گاہ پر نصب) بل بورڈ پبلک پراپرٹیز پر نہیں لگا اور شہری سہولیات کو متاثر نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بل بورڈ کی تنصیب تمام سرکاری ضوابط اور قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور اس کا مقصد کسی عوامی جگہ کو نقصان پہنچانا یا عوام کی حفاظت کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بورڈ کو لگانے کے لئے انسپکٹر جنرل پولیس اور کینٹونمنٹ بورڈ سے اجازت لی گئی ہےانہوں نے مزید بتایا کہ اس (بورڈ) سے حاصل کی گئی رقم (آمدنی) انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کی اجازت سے شہدا پولیس کے ویلفیئر فنڈ میں جمع ہوتی ہے جو شہداء پولیس کی فیملیز کی ویلفیئر کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق عوامی جائیدادوں پر ہوتا ہے، نہ کہ سرکاری عمارتوں کے اندرونی احاطے پر، لیکن جب روزنامہ بیٹھک نے ان کو بتایا کہ اگر ان کی بات کو مان لیا جائے کہ سی پی او ہاوس پبلک پراپرٹی نہیں بلکہ ریذیڈنشل پراپرٹی ہے تو بھی کسی سرکاری ریذیڈنشل پراپرٹی کا کمرشل استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سی پی او کوئی دکاندار تو نہیں ہیں، یہ سرکاری گھر ان کی رہائش کے لئے ہے کمرشل مقصد کے لئے تو نہیں ہے؟
ایس پی چوک کا یہ حصہ جہاں سی پی او ہاوس واقع ہے کینٹ بورڈ کی حدود میں نہیں بلکہ پی ایچ اے کی حدود میں آتا ہے، شہدا فنڈز کے لئے حکومت وسائل فراہم کرتی ہے یہ سی پی او کا کام نہیں ہے کہ وہ فنڈز اکٹھا کرے ار یہ دعوی کہ یہ بورڈ شہری سہولت کو کسی طرح متثر نہیں کرتا ت کیسے دوست مان لیا جائے کہ بورڈ سی پی او ہاوس سے باہر گزرنے والے لوگوں پربھی تو گر سکتا ہے تو ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو بات کہنی تھی کہہ دی ہے اور وہ کوئی مزید کرنا نہیں چاہتے۔ نیازی برادران موقف کے لئے رابطے میں نہ آ سکے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں