گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کا ملتان میں خطاب: معیشت کی بہتری کے لیے اہم اقدامات
ملتان (خصوصی رپورٹر) گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد نے کہا ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے برآمد کنندگان کو ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے لیے اگلے پانچ سالوں میں قرضہ جات کا حجم 1.1ٹریلین روپے تک لے جائیں گے۔ ڈیجیٹل کرنسی کو لیگل کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہیں تاہم حکومتی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس پر کام کر رہی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔60 دنوں کی امپورٹ کے لیے 11.50 ارب ڈالر کا فارن ایکسچینج موجود ہے جو پہلے محض 15 دنوں کی سطح پر موجود تھا۔روایتی مصنوعات کی بجائے غیر روایتی مصنوعات کو نئی منڈیوں میں متعارف کرانے والے ایکسپورٹرز کے لیے جلد سکیم کا اعلان کریں گے۔ ان باتوں کا اظہار انہوں نے ایوان تجارت و صنعت ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعہ پر ایوان کے صدر میاں بختاور تنویر، سینیئر نائب صدر خواجہ محمد محسن ،نائب صدر اظہر بلوچ، سابق صدر خواجہ محمد یوسف، خواجہ محمد حسین، سرفراز احمد،شیخ عاصم سعید،ندیم احمد زیخ، سید افتخار شاہ،ممتاز بابر، احتشام الحق ،سیکرٹری ایوان محمد شفیق و دیگر ممبران اور مختلف بینکوں کے صدور اور عہدیدار بھی موجود تھے۔
گورنر سٹیٹ بینک نے کہا رواں مالی سال میں پاکستان کی معاشی ترقی 3 فیصد سے زیادہ رہنے کی توقع ہے، جبکہ آئندہ مالی سال میں اس سے بھی زیادہ اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترسیلات زر مستحکم ہو رہی ہیں اور رواں مالی سال میں یہ 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی شکل دینے کے حوالے سے جمیل احمد نے کہا سٹیٹ بینک ابھی تیار نہیں ہے تاہم ڈیجیٹل کرنسی کے لیے اپنی صلاحیت بہتر بنا رہا ہے اور اس حوالے سے حکومتی سطح پرایک کمیٹی کام کر رہی ہے جو کہ ٹیکنالوجی اور ریگولیٹری تقاضوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ 2025 کے آخر تک افراط زر مستحکم ہوجائے گی اور عوام کو معاشی استحکام کے دیرپا ثمرات ملیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افراط زر کو 38 فیصد سے کم کر کے 4.1 فیصد پر لایا گیا ہے اور پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ معاشی ترقی اور اس میں بہتری کے لیے ایوان تجارت و صنعت کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے جہاں بزنس مین اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں جس سے نئی پالیسی کی تیاری یا پہلے سے موجود پالیسیوں میں بہتری کے لیے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سال 2022 میں عالمی سطح پر اور ملک میں سیلاب سمیت دیگر مسائل پیدا ہوئے جس سے کرنٹ خسارہ بڑھا اور معاشی صورتحال پیچیدہ ہوگئی۔بزنس کمیونٹی کے تعاون حکومتی پالیسیوں اور سٹیٹ بینک کے اقدامات سے معاشی مسائل حل ہوئے جبکہ باقی ماندہ مسائل بھی جلد ہو جائیں گے۔
مشکل فیصلے کرنا ضروری ہو جاتا ہے اگر ایسا نہ کریں تو مسائل اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارا مقصد معیشت کو مضبوط کرنا اور انڈسٹری کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ملک میں پالیسی ریٹ 22 فیصد کی سطح پر موجود تھا جو کہ اب 10 فیصد کی کمی سے 12 فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔گزشتہ سات سے اٹھ ماہ میں ملکی معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ فنانس سکیم کے تحت ایکسپورٹر نو فیصد کے پالیسی ریٹ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور فنانس کی دستیابی کا مسئلہ بھی موجود نہیں۔ حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے حکومت چاہتی ہے کہ ایکسپورٹرز کو ہر صورت میں سہولیات دی جائیں۔گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں ایس ایم ای سیکٹر اور زراعت کے شعبہ پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔چھوٹے کاروبار کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر قرضہ جات کا ہدف 550 ارب روپے سے بڑھا کر اگلے پانچ سالوں میں 1.1ٹریلین روپے تک لے جائیں گے ۔
اسی سکیم کے تحت چھوٹے کاروبار کے لئے قرضہ جات کی حد کو بڑھا کر 100 ملین جبکہ میڈیم سائز کی انڈسٹری کے لیے قرضہ کی حد کو بڑھا کر 500 ملین روپے کر دیا گیا ہے۔دسمبر 2023 تک 543ارب روپے کی فنانسنگ کی گئی تھی جبکہ دسمبر 2024 تک 638ارب روپے کی فنانسنگ کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کی اہمیت کو سمجھتی ہے اس لیے آئی ٹی ایکسپورٹرز اور فری لانسر کی سہولت کے لیے آئی ٹی بزنس کا 50 فیصد فارن کرنسی اکاؤنٹ میں رکھ سکتے ہیں جس سے اب وہ بغیر کسی اجازت براہ راست اپنے اکاؤنٹ سے پیسے باہر بھیج سکتے ہیں۔ فارماسوٹیکل انڈسٹری کے ایکسپورٹرز کے لیے یہ سہولت 15 فیصد جبکہ باقی ماندہ انڈسٹری کے لیے یہ سہولت 10 فیصد کی سطح پر رکھی گئی ہے تاکہ وہ چھوٹی پیمنٹس کر سکیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سال 2022 میں یہ صورتحال تھی سٹیٹ بینک کے پاس 11ہزار ایل سیز کلیئر ہونے کے لئے موجد تھیں جس سے کام کا بھی بےتحاشا بوجھ بڑھ گیا تھا اور کاروباری برادری کو بھی مسائل کا سامنا تھا۔فوری اقدامات سے اب یہ مسائل ختم ہوگئے ہیں اور بزنس مینوں کو ایل سیز کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ڈیجیٹلائزیشن پر فوکس ہے اور ایک پروجیکٹ لانچ کیا ہے جس کے ذریعے اب فنڈز تین سیکنڈ کی قلیل وقت میں دوسرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے جا سکتے ہیں اس کا زیادہ سے زیادہ وقت 17 سیکنڈ ہے۔حالیہ کچھ عرصے کے دوران 91 ملین لوگوں نے بینک اکاؤنٹ اوپن کیے ہیں جو کہ بالغ افراد کا 64 فیصد بنتے ہیں ہمارا منصوبہ ہے کہ 2028 تک ملکی ابادی کے 75 فیصد بالغ شہری اکاؤنٹ ہولڈر بن جائیں۔قبل ازیں ایوان تجارت و صنعت ملتان کے صدر میاں بختاور تنویر شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے پہلے ملکی معیشت مستحکم تھی جی ڈی پی گروتھ چار فیصد جبکہ شرح سود 9 سے 10 فیصد کی سطح پر موجود تھی اور سب اچھا چل رہا تھا۔ سال 2019 میں کرونا کی آمد پر عالمی سطح پر اور پاکستان میں معیشت کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ۔ایک جانب تو دنیا بند ہو گئی دوسری جانب پاکستان میں بھی حالات ابتری کا شکار ہوگئے۔
ایسے میں ہر ملک نے اپنی معیشت کو بچانے کے لئے اقدامات کئے۔پاکستان میں حکومت نے سٹیٹ بینک کے تعاون سے فائنانسنگ سکیم متعارف کرائیں سیلری لون دیے گئے جس سے معیشت بہتری کی جانب رواں دواں ہوئی تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایک بار پھر معیشت ابتری کا شکار ہو گئی اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بےقدری ہوگئی ایسے میں سٹیٹ بینک اور حکومت نے نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے فوری اور ٹھوس اقدامات شروع کئے جس سے ڈوبتی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہونا شروع ہوئی۔جون 2024 میں شرع سود 23 فیصد کی بلند ترین سطح پر موجود تھی۔
جو کہ اب بتدریج کم ہو کے 12 فیصد کی سطح پر اگئی ہے اور ملک میں بے روزگاری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے معیشت مثبت سمت میں جا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ پالیسیوں کا تسلسل بھی برقرار رہے۔انہوں نے کہا کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے اور ایکسپورٹ سیکٹر کو سبسیڈائز فنانسنگ سکیم جاری کی جائے ملک میں سستی فنانسنگ دستیاب ہونی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ ذرعی سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے۔ کوشش کی جائے کہ پاکستان گندم ،کپاس، آئل سیڈ اور خوردنی تیل میں خود کفیل ہو اور ان کے امپورٹ بل میں کمی پیدا ہوسکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں